سمادھی کو نذرآتش کرنے کا معاملہ: حکومت کے تحت ہونیوالے جرگے میں ہندو برداری، رہائشیوں کے مابین تصفیہ

پشاور (ڈیلی اردو) دو ماہ قبل ایک ہندو بزرگ کی سمادھی (مزار) میں توڑ پھوڑ اور اسے مسمار کرنے کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے خیبر پختونخوا حکومت کے حمایت یافتہ جرگے نے ضلع کرک کے رہائشیوں اور ہندو برادری کے ممبروں کے مابین معاہدے پر مشتمل تصفیہ کرادیا۔

واضح رہے کہ 30 دسمبر 2020 کو ایک مشتعل ہجوم نے ضلع کرک کے دور دراز علاقے میں شری پرم ہنس جی مہاراج میں توڑ پھوڑ کی اور آگ لگا دی تھی۔

ڈان کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے سائنس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی ضیا اللہ بنگش اور پاکستان ہندو کونسل کے سرپرست اعلیٰ اور رکن قومی اسمبلی رمیش کمار نے ایک پریس کانفرنس میں مذکورہ پیش رفت سے آگاہ کیا۔

انہوں نے بتایا کہ کرک کے رہائشیوں نے سمادھی میں توڑ پھوڑ کرنے پر ہندو برادری سے معافی مانگی جبکہ ہندوؤں نے معذرت قبول کی اور جرگے کو یقین دہانی کرائی کہ مزار کو گرانے کے الزام میں گرفتار افراد کی رہائی سمیت تمام امور میں تعاون کریں گے۔

پولیس نے 30 سے زائد افراد کو گرفتار کیا تھا جن میں جے یو آئی-ف کے ایک سینئر رہنما اور علما شامل تھے جنہوں نے سمادھی کی بے حرمتی کی تھی۔

ضیا اللہ بنگش نے کہا کہ اس معاملے پر وزیر اعلیٰ محمود خان نے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جب کہ مقامی سطح پر اجلاس کا انعقاد کیا گیا جس میں ہندو کونسل اس میں شامل تھی۔

انہوں نے کہا کہ جرگے نے اس معاہدے کی منظوری حاصل کرنے کے لیے وزیر اعلیٰ سے بھی ملاقات کی تھی۔

وزیر اعلیٰ کے معاون نے کہا کہ دونوں فریقین اور حکومتی نمائندوں نے دو روز قبل ہوم سیکریٹری کے دفتر میں ملاقات کی تھی اور معاہدے پر اتفاق کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں نے سمادی کی بے حرمتی کے الزام میں گرفتار افراد نے بھی باضابطہ طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ جرگے کے فیصلے پر عمل کریں گے جبکہ رمیش کمار نے بھی یقین دہانی کرائی کہ وہ اس فیصلے کی پاسداری کریں گے۔

ضیا اللہ بنگش نے کہا کہ مقامی عمائدین نے سمادھی کی بے حرمتی پر ہندو برادری سے معافی مانگی ہے اور سمادھی کو آئین میں درج کردہ مذہبی حقوق کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی۔

بزرگوں نے یہ بھی کہا کہ جب بھی ہندو تیری جائیں گے تو وہ (بزرگ) ان کا استقبال کریں گے۔

رمیش کمار اور حکومت کے نمائندوں نے سمادھی پر حملے میں گرفتار افراد کی رہائی کے لیے تعاون کی پیش کش پر اتفاق کیا۔

انہوں نے کہا کہ فریقین نے مستقبل میں پیدا ہونے والے کسی بھی مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔

رمیش کمار نے کہا کہ ہندوؤں نے بھی مقامی عمائدین کی جانب سے معذرت کے بعد ان تمام معاملات کے حل کے لیے تعاون پر اتفاق کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر وزیر اعلیٰ نے 3 بار ان سے ملاقات کی۔

اس موقع پر مقامی ایم پی اے میاں نثار گل کاکا خیل نے کہا کہ یہ واقعہ ایک غلط فہمی کی وجہ سے پیش آیا اور حکومت کو چاہیے کہ وہ حراست میں لیے گئے افراد کی جلد رہائی کے لیے قانونی تقاضے پورے کرے۔

اس معاملے میں چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقے کرک میں ہجوم کے ہاتھوں ہندو بزرگ کی سمادھی میں توڑ پھوڑ اور نذرآتش کرنے کا از نوٹس لے لیا تھا اور ساتھ ہی پولیس نے 14 افراد کو گرفتار کرلیا تھا۔

شری پرم ہنس جی مہاراج کی سمادھی کو ہندو کمیونٹی کی جانب سے مقدس سمجھا جاتا ہے اور ہندو مذہب کو ماننے والے خاص طور پر سندھ سے لوگ یہاں آتے تھے۔

خیال رہے کہ شری پرم ہنس جی مہاراج کی سمادھی کے معاملے پر دہائیوں قبل تنازع شروع ہوا تھا، 1997 میں اس جگہ کو مسمار کردیا گیا تھا تاہم 2015 میں سپریم کورٹ نے خیبرپختونخوا حکومت کو ہندو سمادھی کو بحال کرنے اور دوبارہ تعمیر کا حکم دیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں