معروف پاکستانی مبلغ انجینئر محمد علی مرزا پر قاتلانہ حملہ، ملزم گرفتار

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) ہلکے پھلکے انداز میں مسکراتے ہوئے بات کرنے والے انجینیئر محمد علی مرزا پاکستان کے ایک معروف مبلغ ہیں جو اپنے غیر روایتی نظریات کی بنا پر اکثر زیرِ بحث رہتے ہیں۔

جہلم سے تعلق رکھنے والے انجینیئر محمد علی مرزا اسی شہر میں واقع اپنے مدرسے میں مختلف مذہبی موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں جس کے دوران لوگوں کے سوالوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

اتوار کو بھی وہ ایسے ہی ایک درس کے بعد لوگوں کے ساتھ تصاویر بنوا رہے تھے کہ ان پر ایک نوجوان نے چاقو سے حملہ کر کے انھیں مارنے کی کوشش کی تاہم حملہ آور کو لوگوں نے پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا۔

جہلم پولیس کے مطابق انجینیئر محمد علی مرزا کو اس واقعے میں بازو پر زخم آیا ہے تاہم وہ محفوظ ہیں۔

جہلم کے تھانہ سٹی میں اس واقعے کی ایف آئی آر اقدامِ قتل کے تحت درج کر لی گئی ہے۔

پولیس کے مطابق انجینیئر محمد علی مرزا پر حملہ کرنے والا نوجوان پہلے بھی اُنھیں سننے کے لیے آتا رہا تھا تاہم مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے تفتیش کی جا رہی ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ اُنھیں سکیورٹی فراہم کی جا رہی ہے۔

اپنے یوٹیوب چینل کے ذریعے انجینیئر محمد علی مرزا نے خود پر ہونے والے حملے کی اطلاع دی

انجینیئر محمد علی مرزا ہیں کون؟

اُن کے اپنے یوٹیوب چینل پر موجود 1600 سے زائد ویڈیوز لاکھوں مرتبہ دیکھی جا چکی ہیں اور ان کے سبکسرائبرز کی تعداد 14 لاکھ سے زیادہ ہے۔

متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے انجینیئر محمد علی مرزا کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اُن کی سب سے بڑی قوت یہ ہے کہ وہ کسی مذہبی یا سیاسی گروہ سے تعلق نہیں رکھتے چنانچہ وہ آزادی سے اپنے مؤقف کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔

وہ خود کے بارے میں بھی کہتے ہیں کہ اُن کا تعلق کسی مسلک سے نہیں ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ‘میں ہوں مسلم علمی کتابی۔’

انجینیئر محمد علی مرزا نے گذشتہ سال عورت مارچ کے بارے میں بھی گفتگو کی تھی جس میں اُنھوں نے اس مارچ میں بلند کیے جانے والے نعروں اور پلے کارڈز کو قابلِ اعتراض قرار دیا تھا مگر ساتھ ہی ساتھ اُنھوں نے اس ویڈیو میں مزید کہا تھا کہ ’یہ ہمارے برِ صغیر معاشرے کی تلخ حقیقت ہے کہ عورتوں کو پاؤں کی جوتی بنا کر رکھا جاتا ہے۔‘

اُنھوں نے اس ویڈیو میں مذہبی علما پر بھی سخت تنقید کی تھی۔ اس کے علاوہ انھوں نے معاشرے میں عورتوں کو جائیداد میں حق نہ دینے، مارنے پیٹنے، اور تیزاب کے حملوں پر بھی کھل کر بات کرتے ہوئے ان کاموں کی مذمت کی تھی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے صحافی کلبِ علی نے بتایا کہ انجینیئر محمد علی مرزا کے بارے میں اہم بات یہ ہے کہ اُن کی بات کا جواب عام طور پر دلیل سے نہیں دیا جاتا بلکہ اس کے جواب میں اُن کی شخصیت کو ہدف بنایا جاتا ہے۔

کلبِ علی روزنامہ ڈان سے وابستہ ہیں اور مذہبی اُمور پر رپورٹنگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ انجینیئر محمد علی مرزا سے تقریباً ہر مسلک کے لوگ ہی ناراض ہوتے ہیں کیونکہ وہ دلیل سے بات کرتے ہیں جو کبھی کسی مسلک کے لوگوں کے خلاف ہوتی ہے تو کسی کے حق میں۔

‘لیکن اس کے باوجود لاکھوں لوگ ان کے فالوورز ہیں جو کھلا ذہن رکھتے ہیں اور اُن کی گفتگو کو سنتے ہیں۔’

اس بات کا اندازہ اُن کی یوٹیوب ویڈیوز کے نیچے موجود کمنٹس سے بھی ہو سکتا ہے جس میں زیادہ تر لوگ اُنھیں متحد کرنے والا شخص قرار دیتے ہیں جبکہ کچھ لوگ یہ بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ وہ اُن سے اختلاف رکھتے ہیں مگر اُن کے دلائل کا جواب نہیں رکھتے۔

کلبِ علی بتاتے ہیں کہ انجینیئر محمد علی مرزا کو اکثر و بیشتر مختلف مسالک کی جانب سے ایک دوسرے کا ‘ایجنٹ’ قرار دیا جاتا رہا ہے۔

‘اُنھیں ‘احمدی ایجنٹ’ بھی کہا جاتا رہا ہے تو کبھی اُنھیں ‘شیعہ ایجنٹ’ بھی کہا گیا ہے، تاہم اُن کی باتوں کو دلیل سے رد کرنے کے بجائے اُن کی ذات کو ہی نشانہ بنایا جاتا ہے۔’

اُن کے مطابق انجینیئر محمد علی مرزا کی ایسی ہی گفتگو کی وجہ سے کچھ شخصیات اور لوگ اُن کے خلاف اشتعال رکھتے ہیں اور بعید نہیں ہے کہ اُن پر حملہ کرنے والا شخص اُن کے خلاف کسی کی تقریر سُن کر جذباتی ہوگیا ہو۔

یاد رہے کہ انجینیئر محمد علی مرزا پر اس سے پہلے بھی اکتوبر 2017 میں قاتلانہ حملہ ہو چکا ہے۔

اس کے علاوہ مئی 2020 میں اس وقت اُن پر مذہبی شخصیات کے خلاف ‘اشتعال انگیز’ تقریر کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا تاہم وہ ضمانت پر رہا ہوگئے تھے۔

سوشل میڈیا پر ردِ عمل

ٹوئٹر پر پاکستان میں انجینیئر محمد علی مرزا کا نام پیر کی صبح ٹاپ ٹرینڈ بنا رہا اور عمومی طور پر لوگ اُن سے اپنے اختلاف کا اظہار کرنے کے ساتھ ہی اُن پر ہونے والے حملے کی مذمت کرتے ہوئے نظر آئے۔

ایک صارف ظہیر الحسن نے کہا کہ آپ اُن سے چند مسائل پر اختلاف کر سکتے ہیں مگر وہ اُن مسائل پر بات کرنے کی ہمت کرتے ہیں جس پر بہت سے لوگ نہیں کرتے۔ ہمارے قابل احترام علما کو آگے بڑھ کر اختلافِ رائے کے لیے احترام اور برداشت کا درس دینا چاہیے۔

عمر خان نے لکھا کہ یہ ہوتا ہے جب آپ حق اور سچ بات کرتے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ہم امن و بھائی چارے کے ساتھ کیوں نہیں رہ سکتے۔

ایک ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ وہ مسیحی ہیں اور محمد علی مرزا کے لیکچرز سن چکے ہیں، دیگر سکالرز کے برعکس وہ نفرت کے خاتمے کی کوشش کرتے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ وہ احمدی برادری اور پاکستان کی دیگر مذہبی اقلیتوں کے خلاف ظلم کی مخالفت کرتے ہیں شاید اس لیے انتہائی مذہبی لوگوں کو وہ پسند نہیں آتے۔

صائم نامی ایک صارف نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ محمد علی مرزا محفوظ ہیں، ساتھ ہی کہا کہ تمام اختلافات کے باوجود یہ صحیح طریقہ نہیں ہو سکتا اور وہ اس ‘شرمناک اقدام’ کی مذمت کرتے ہیں۔

عائشہ حنیف نے لکھا کہ انجینیئر محمد علی مرزا پاکستان کے وہ واحد شخص ہیں جو کسی ‘فرقہ واریت’ کو فروغ نہیں دے رہے۔ اُنھوں نے کہا کہ وہ ہر چیز قرآن اور صحیح حدیث کے حوالے سے بیان کرتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں