امریکا نے 10 روسی سفارت کار ملک بدر کر دئیے

واشنگٹن (ڈیلی اردو) امریکا کی بائیڈن انتظامیہ نے ہیکنگ کے الزام میں روس کے 10 سفارت کاروں کو ملک بدر کردیا ہے اور 38 روسی شخصیات، اداروں اور کمپنیوں کے خلاف پابندیاں عاید کردی ہیں۔

صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ نے یہ اقدام روسیوں کی جانب سے امریکا کے سرکاری اداروں اور ایجنسیوں کے کمپیوٹر نظاموں کو ہیک کرنے کے الزام میں کیا ہے۔روسی ہیکروں نے مبیّنہ طور پر ’’سولرونڈز‘‘ کے نام سے امریکا کی نو ایجنسیوں کے سوفٹ وئیر میں ایک خطرناک کوڈ داخل کردیا تھا تاکہ وہ اس کے ذریعے ان کے نیٹ ورکس تک رسائی حاصل کرسکیں۔

اس کے علاوہ امریکی حکام نے گذشتہ ماہ صدر ولادی میر پوتین پر یہ الزام عاید کیا تھا کہ انھوں نے گذشتہ سال امریکا کے صدارتی انتخابات میں ایسی سائبر کارروائیوں کی اجازت دی تھی جن سے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کی راہ ہموار ہوسکے۔تاہم ابھی تک ایسی کوئی شواہد سامنے نہیں لائے گئے جن سے یہ پتا چل سکے کہ روس نے امریکا میں منعقدہ صدارتی انتخابات کو تبدیل کرانے کے لیے اس طرح کی کوئی مداخلت کی تھی۔

بائیڈن انتظامیہ نے جمعرات کو روس کی چھے کمپنیوں پر ملک کی سائبر سرگرمیوں کی معاونت پر پابندیاں عاید کی ہیں۔ان کے علاوہ 32 افراد اور روسی اداروں پر گذشتہ سال امریکا میں صدارتی انتخابات میں مداخلت اور غلط معلومات پھیلانے کے الزام میں پابندیاں عاید کی ہیں۔

وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ جن 10 روسی سفارت کاروں کو امریکا بدر کیا جارہا ہے، ان میں روسی انٹیلی سروسز کے نمایندے بھی شامل ہیں۔

اس کا مزید کہنا ہے کہ صدر بائیڈن روس کی جانب سے افغانستان میں طالبان کی امریکی اوراتحادی فوجوں پر حملوں کی حوصلہ افزائی کا سفارتی ، عسکری اور انٹیلی جنس ذرائع سے جواب دینے کے لیے اقدامات کررہے ہیں۔

فوری طور پر یہ واضح نہیں ہوا کہ امریکا اس ضمن میں روس کے خلاف کیا اقدامات کرے گا۔البتہ قبل ازیں امریکی حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ یہ اقدامات علانیہ اور غیرمرئی دونوں ہوسکتے ہیں۔

امریکا کی روس کے خلاف ان نئی پابندیوں سے دونوں ملکوں میں پہلے سے کشیدہ تعلقات میں مزید تناؤ آئے گا۔صدر بائیڈن نے اسی ہفتے روسی ہم منصب ولادی میر پوتین سے فون پر گفتگو میں کشیدگی کے خاتمے پر زور دیا تھا اور کہا تھا کہ امریکا اپنے بین الاقوامی مفادات کے تحفظ کے لیے سخت اقدامات کرے گا۔انھوں نے یوکرین کی سرحد پر روسی فوج کی آمد کے بعد یہ فون کال کی تھی۔

واضح رہے کہ سابق وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے دسمبر 2020ء میں روس پر امریکا کی متعدد سرکاری ایجنسیوں کے کمپیوٹر نظاموں پر تباہ کن حملے کا الزام عاید کیا تھا۔اس حملے میں دنیا بھر میں مختلف اہداف کو نشانہ بنایا گیا تھا۔انھوں نے کہا کہ ’’ایک تھرڈپارٹی کے سوفٹ وئیر کے ذریعے امریکی حکومت کے نظاموں کے اندر ایک کوڈ داخل کیا گیا تھا۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ امریکی ایجنسیوں کے نظاموں پر اس بڑے سائبر حملے میں واضح طور پر روس کا ہاتھ کارفرما ہے جبکہ روس نے اس الزام کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ اس کا اس سائبر حملے سے کوئی لینا دینا نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں