لاہور دھماکا: کسی نے ہسپتال پہنچانے کیلئے گاڑی نہیں روکی، زخمی پولیس کانسٹیبل

لاہور (ڈیلی اردو/بی بی سی) یہ لاہور شہر کا ایک گنجان آباد رہائشی علاقہ تھا۔ اس کی ایک گلی میں بدھ کی صبح ایک گاڑی دھماکے سے پھٹ گئی۔ ایک اندازے کے مطابق اس گاڑی میں کئی کلو دھماکہ خیز مواد نصب تھا۔

اس کے اثرات ارد گرد کے مکانات اور عمارتوں کی کھڑکیوں کے ٹوٹے شیشوں اور چھلنی دیواروں پر ایک نظر ڈالنے سے واضح ہو جاتے ہیں۔ جو گھر براہِ راست دھماکے کی زد میں ان کے لوہے کے آہنی گیٹ بھی یوں چھلنی ہو چکے تھے جیسے ان پر مشین گن سے گولیاں برسائی گئی ہوں۔

کار بم سے نکلنے والے گرم لوہے کے ٹکڑوں، کیل پیچوں اور بال بیئرنگ کی اس بوچھاڑ کی زد میں انسان بھی آئے تھے۔ کانسٹیبل محمد طاہر ان میں سے ایک تھے۔ ان کے ساتھی بتاتے ہیں وہ دھماکے کے مرکز سے اتنے کم فاصلے پر تھے کہ انھوں نے دھماکے کی چمک دیکھی ہو گی۔

دھماکے کے مقام پر تعینات پولیس اہلکاروں میں سے ایک نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘وہ بچ اس لیے گئے کہ وہ ذرا آڑ میں کھڑے تھے۔’ لیکن یہ وہی کانسٹیبل رانا طاہر ہیں جن کی ایک تصویر دھماکے کے فوراً بعد سے سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھی۔

اس میں نظر آ رہا تھا کہ ان کا بائیاں کندھا بری طرح زخمی تھا۔ اس میں سے خون بہہ رہا تھا اور ان کے چہرے پر ایک طرف گال پر ایک سوراخ تھا جس میں سے خون رس رہا تھا۔ ان کی قمیض سامنے سے خون میں لت پت تھی۔

تصویر میں وہ اس حالت میں بھی پر سکون انداز میں بیٹھے ایک سٹیل کے گلاس سے پانی پیتے نظر آ رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر کئی صارفین ان کی بہادری کو سراہتے ہوئے نظر آئے تھے۔

https://twitter.com/ammarmasood3/status/1407801158748590088?s=19

لیکن اس تصویر کے پس منظر میں کیا تھا؟

رانا طاہر تین یا چار روز قبل اس مقام پر ڈیوٹی کے لیے آئے تھے۔ اس علاقے میں کالعدم تنظیم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کی رہائش گاہ تھی۔ یاد رہے کہ حافظ سعید پہلے ہی دہشت گردی کے لیے فنڈنگ کے مختلف مقدمات میں عدالت سے سزا پانے کے بعد جیل میں تھے۔

تاہم ان کے اس گھر کی طرف جانے والے راستوں پر پولیس اہلکار تعینات تھے۔ رانا طاہر ان میں سے ایک تھے اور ڈیوٹی پر مامور تھے جب کار دھماکے سے پھٹ گئی۔ وہ براہِ راست اس کی زد میں آئے۔

اس وقت وہاں موجود ان کے ساتھی ان کی مدد کو لپکے تا کہ ان کو فوری طبی امداد فراہم کی جائے۔ لیکن رانا طاہر نے ان کو روک کر کہا کہ ‘میں ٹھیک ہوں۔ دھماکہ ہوا ہے تم اس طرف جاؤ۔’ ان کا کندھا بری طرح چھلنی ہو گیا تھا اور چہرے پر بھی بال بیئرنگ وغیرہ لگے تھے۔

رانا طاہر نے ہمت مجتمع کی اور خود ایک جگہ بیٹھ گئے۔ وہیں پاس ہی پانی کا ایک کولر پڑا ہوتا تھا۔ اس کولر میں سے پانی کا ایک گلاس بھر کر انھوں نے خود ہی پانی پیا۔

‘کسی نے انھیں ہسپتال لے جانے کیلئے گاڑی نہیں روکی’

یہ آپ بیتی رانا طاہر نے خود اپنی اہلیہ ثمرانا بی بی کو اس وقت بتائی تھی جب ابتدائی طبی امداد کے بعد وہ ہوش میں آئے تھے اور ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ ان کی حالت خطرے سے باہر تھی۔

لاہور کے جناح ہسپتال کے ایک وارڈ کے باہر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کی اہلیہ نے بتایا رانا طاہر اسی زخمی حالت میں خود چل کر ہسپتال پہنچے تھے۔

کار بم کے دھماکے کے بعد اٹھتے گرد و غبار اور افرا تفری کے دوران ان کے ایک ساتھی نے ان سے کہا تھا کہ ‘آپ کو فوری ہسپتال پہنچنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اگر کسی گاڑی میں انہیں قریبی جناح ہسپتال پہنچایا جا سکے تو بہتر ہو گا۔’

جناح ہسپتال اس مقام سے محض ایک سے دو کلومیڑ کے فاصلے پر واقع تھا۔ تاہم جب رانا طاہر نے خود سے اٹھ باہر مرکزی شاہراہ پر آئے اور ‘گزرتی گاڑیوں کو رکنے اور انھیں ہسپتال پہنچانے کی درخواست کی، تو کوئی انھیں ہسپتال پہنچانے کے لیے نہیں رکا۔’

’خود چل کر ایمرجنسی میں آئے‘

ان کی اہلیہ ثمرانا بی بی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کافی کوشش کے بعد رانا طاہر کو ایک گاڑی میں لفٹ ملی جنھوں نے انھیں جناح ہسپتال پہنچایا۔

’وہ اس وقت بھی مکمل طور پر ہوش و حواس میں تھے اور خود چل کر ایمرجنسی میں آئے تھے اور ڈاکٹروں کو بتایا کہ انہیں کہاں زخم آئے تھے۔‘

ثمرانا بی بی کے مطابق ڈاکٹروں نے آپریشن کر کے ان کے جسم میں پیوست بال بیئرنگ اور لوہے کے ٹکڑے نکال دیے تھے۔

تاہم ابھی ان کے کندھے کے مزید آپریشن ہونا باقی تھے جس کے بعد وہ اس کو حرکت دینے کے قابل ہو پائیں گے اور اس کی مکمل بحالی میں وقت لگے گا۔ ڈاکٹروں نے ہدایات دی تھیں کہ رانا طاہر سے اس واقعہ کے حوالے سے بات نہ کی جائے کیونکہ اس طرح وہ ذہنی صدمے کا شکار ہو سکتے تھے۔

’وہ بہت بہادر شخص ہیں۔۔۔مگر جب بچوں کا خیال آئے‘

سوشل میڈیا پر ان کی تعریف کرنے والے صارفین کے حوالے سے ردِ عمل میں ثمرانا بی بی کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے شوہر بہت بہادر تھے۔

https://twitter.com/OfficialDPRPP/status/1407677203207409666?s=19

’اس میں کوئی شک نہیں۔ آپ کے سامنے ہے کہ ان کے زخموں کی نوعیت کیا تھی۔ اس حالت میں خود کو دیکھ کر بھی اس طرح ہمت مجتمع رکھنا اور خود ہسپتال تک پہنچنا، بڑی بہادری کی بات تھی۔‘

تاہم ان کے خیال میں ’کوئی کتنا بھی بہادر ہو جب اس کو ایسی حالت میں اپنے بچوں کا خیال آئے تو دل دہل جاتا ہے۔‘

ان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔ وہ گزشتہ 14 برس سے پولیس کی نوکری کر رہے تھے۔ ثمرانا بی بی خود اب مطمئن تھیں کہ ان کے شوہر ان کے اور بچوں کے ساتھ تھے تاہم انھیں ’دعاؤں کی ضرورت تھی۔‘

وہ لاہور کے مضافات میں ضلع ننکانہ صاحب کے ایک گاؤں نگر پکا کے رہائشی تھے اور روز وہیں سے نوکری کے لیے آیا جایا کرتے تھے۔ ان دنوں وہ پولیس لائن میں تعینات تھے تاہم حال ہی میں انھوں نے اپنی ڈیوٹی دھماکے کے مقام پر لگوائی تھی کیونکہ یہ جگہ ان کے گھر سے قریب تھی۔

ثمرانا بی بی کا کہنا تھا کہ لاہور پولیس کا افسران اور محکمے نے انھیں مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی تھی اور مسلسل ان کے ساتھ رابطے میں تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں