پاکستان نے اسلام آباد میں افغان سفیر کی صاحبزادی پر حملے کی تصدیق کر دی

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے/بی بی سی) پاکستان کے دفترِ خارجہ نے افغانستان کے پاکستان میں سفیر کی صاحبزادی پر اسلام آباد میں حملے کی تصدیق کر دی ہے۔

دفترِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ افغان سفارت خانے نے اطلاع دی کہ سفیر کی صاحبزادی پر گاڑی چلاتے ہوئے حملہ ہوا ہے۔ افغان سفیر اور ان کے خاندان کی سیکیورٹی مزید سخت کر دی گئی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے واقعے میں ملوث ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔

اس سے قبل افغان دفترِ خارجہ کی طرف سے ایک بیان جاری کیا گیا تھا جس میں کہا کیا گیا تھا کہ افغان سفیر کی صاحبزادی کو اسلام آباد میں اغوا کرنے کے بعد تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

افغان دفترِ خارجہ کا کہنا تھا کہ افغان سفیر کی صاحبزادی سلسلہ علی خیل کو گھر واپسی پر کئی گھنٹوں کے لیے اغوا کیا گیا۔

بیان کے مطابق وہ اب ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔

افغان دفتر خارجہ نے اس عمل کی سخت مذمت کی ہے۔ افغان دفترخارجہ نے پاکستان میں تعینات عملے اور ان کے اہل خانہ کی سیکیورٹی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

افغان دفترِ خارجہ نے مطالبہ کیا ہے کہ سفارتی عملے اور ان کے اہلِ خانہ کی حفاظت کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں۔ افغان دفتر خارجہ نے کہا کہ عالمی قوانین و کنونشنز کے مطابق ان کی حفاظت کے لیے اقدامات کرنا لازم ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے وزیر داخلہ، آئی جی پولیس اسلام آباد اور متعلقہ اداروں کو واقعے اولین ترجیح کے طور تحقیقات کرتے ہوئے پر 48 گھنٹے میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔

وزیر اعظم کی جانب سے جاری بیان کے مطابق حکام افغان سفیر اور ان کے گھرانے کے ساتھ رابطے میں ہیں۔

پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کا کہنا ہے کہ انھوں نے پولیس کو اس واقعے میں ملوث افراد کو جلد از جلد گرفتار کرنے کی ہدایت جاری کی۔

پاکستان کے دفترِ خارجہ سے جاری بیان کے مطابق افغان سفارت خانے نے جمعے کو افغان سفیر کی بیٹی کے حوالے سے اطلاع دی تھی۔ واقعے کی اطلاع کے فوری بعد اسلام آباد پولیس نے جامع تحقیقات کا آغاز کر دیا۔

اس بارے میں وائس آف امریکہ نے پولیس حکام سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن کسی پولیس افسر کی طرف سے اس بارے میں بات نہیں کی گئی۔

پولیس ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق افغان سفیر کی صاحبزادی کا اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں میڈیکل چیک اپ کرایا گیا ہے۔

پولیس ذرائع کا کہنا تھا کہ اس بارے میں اطلاع ملنے کے بعد فرانزک شواہد اکٹھے کیے جا رہے ہیں جن میں افغان سفیر کی صاحبزادی کے موبائل نمبر سے ٹریسنگ کی کوشش کی جا رہی ہے۔

دوسری جانب افغانستان کی وزارت خارجہ نے کابل میں پاکستان کے سفیر منصور احمد خان کو طلب کر کے اسلام آباد میں افغان سفیر کی بیٹی کے اغوا پر احتجاج بھی ریکارڈ کرایا ہے۔

پاکستان کے سفر کو کہا گیا ہے کہ افغان وزارتِ خارجہ کا احتجاج پاکستان کی وزارتِ خارجہ اور ریاست کو پہنچایا جائے۔

بیان کے مطابق افغان وزارتِ خارجہ پاکستان سے اس ناقابل معافی حرکت کے پیچھے ملوث مجرموں کو فوراََ کو گرفتار کرنے اور سزا دینے کا مطالبہ کرتی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان وزارتِ خارجہ پاکستان سے بین الاقوامی قوانین کے مطابق پاکستان میں موجود افغان سفارت کاروں کی سیکیورٹی اور تحفظ کو یقینی بنانے کا بھی مطالبہ کرتی ہے۔

یاد رہے کہ یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب افغانستان کی جانب سے پاکستان پر مسلسل طالبان کی حمایت کرنے کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں اور دونوں ممالک کے رہنماؤں میں لفظی جنگ جاری ہے۔

افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد سے ملک میں طالبان کے ملک کے بیشتر حصوں پر قبضے کیے جانے کے بعد افغان حکومت پریشانی کا شکار ہے اور ایسے میں افغان رہنماؤں کی جانب سے پاکستان پر الزامات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

کچھ دن پہلے افغانستان کے نائب صدر امر اللہ صالح نے ٹوئٹر پر دعویٰ کیا تھا کہ پاکستانی فضائیہ نے افغان فوج اور افغان فضائیہ کو سرکاری طور پر متنبہ کیا ہے کہ اگر طالبان کو افغان علاقے سپین بولدک سے بے دخل کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کوششوں کا جواب پاکستانی فضائیہ دے گی۔ پاکستان نے ان کے اس موقف کو یکسر مسترد کر دیا تھا۔

پاکستانی اور افغان رہنماؤں کی یہ لفظی جنگ یہاں ٹھہری نہیں بلکہ جمعے کو ازبکستان کے شہر تاشقند میں صورتحال میں اس وقت کشیدگی عود آئی جب افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان پر الزام عائد کیا کہ دس ہزار جنگجو اس کی سرحد عبور کر کے افغانستان میں آئے ہیں تاہم پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور کانفرنس میں موجود پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید نے اشرف غنی کے الزامات کو یکسر مسترد کر دیا۔

عمران خان نے اشرف غنی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’جب پاکستان کہہ رہا تھا کہ طالبان سے بات چیت کریں تو اس وقت ایسا نہیں کیا گیا اوراب جب طالبان فتح کے قریب پہنچ چکے ہیں تو بات چیت کی باتیں کی جا رہی ہیں۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں