پنجاب: چنیوٹ میں پانچ احمدیوں کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ درج

اسلام آباد (ش ح ط) پنجاب پولیس نے کانسٹیبل کی شکایت پر پانچ احمدیوں کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔

صوبہ پنجاب کے ضلع چنیوٹ کے چناب نگر تھانے میں بطور کانسٹیبل تعینات محمد حسن شہزاد کی مدعیت میں درج ایف آئی آر کی تفصیلات کے مطابق الیاس احمد بلوچ جو احمدی برداری سے ہے اس نے عید الاضحی کے دن چھ، سات بیل قربان کئے ہیں اور اس نے ایسا کر کے شعائر اسلام کا مذاق اڑایا ہے۔

ایف آئی آر نمبر 335/21 کے مطابق محمد حسن شہزاد عید کے پہلے دن لاری اڈہ چناب نگر پر سیکیورٹی کی ڈیوٹی کے سلسلے میں تعینات تھا کہ اسے اطلاع موصول ہوئی کہ الیاس احمد بلوچ سکنہ دارالعلوم چناب نگر جو قصاب کا کام کرتا ہے اور قادیانی ہے، تین چار نامعلوم افراد کے ہمراہ ریلوے پھاٹک مین بازار پر کھلی جگہ میں قربانی کے جانور ذبح کر رہا ہے۔

کانسٹیبل محمد حسن شہزاد وہاں پہنچا تو دیکھا کہ الیاس احمد بلوچ ولد رفیق ناصر اور دیگر افراد نے چھ، سات بیل ذبح کر رکھے تھے اور کھالیں اتار رہے تھے۔ مذکورہ الیاس احمد نے قادیانی ہوتے ہوئے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر کے قربانی کر کے شعائر اسلام کا مذاق اڑایا ہے۔ مذکورہ کے اس فعل سے گردو نواح کے مسلمانوں میں کافی تشویش پائی جاتی ہے۔

جس پر ملزم الیاس اور دیگر افراد کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 298-سی کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق کیس پر تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔

زیر دفعہ 298 کے تحت مذہبی معاملات میں کسی کی دل آزاری کرنے کی سزا ایک سال سے تین سال تک قید یا پانچ لاکھ روپے جرمانہ ہے۔ 298 اے کا تعلق مقدس ہستیوں کے احترام سے ہے۔ اس کے مطابق امہات المومنین، اہل بیت، خلفائے راشدین اور صحابہ کرام کی توہین کی سزا تین سال تک قید یا جرمانہ ہے۔

قید اور جرمانے سے متعلق دفعہ 298- سی میں یہ گنجائش رکھی گئی ہے کہ عدالت چاہے تو قید اور جرمانے کی دونوں سزائیں ایک ساتھ سنا سکتی ہے۔

واضح رہے کہ فوجی آمر جنرل محمد ضیاء الحق (1977-1988) کے مذہبی طور پر قدامت پسند دور میں توہین مذہب کے خلاف اضافی قوانین متعارف کروائے گئے جو خصوصی طور پر اسلام سے متعلق تھے۔ ان میں واضح طور پر احمدی مسلم اقلیت کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان میں سیکشن 295۔بی (1982)، 295۔سی (1986)، 298۔اے (1980)، 298۔ بی اور 298۔ سی (دونوں 1984) میں شامل ہیں۔

آج پاکستان کے پینل قانون میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا قانون سیکشن 295۔اے (مذہبی جذبات ابھارنے، غم و غصہ پھیلانے)، 295۔ بی (قرآن کی بےحرمتی کرنا)، 295۔ سی (پیغمر اسلام کے نام کی بےحرمتی) اور 298۔ اے (پیغمبر اسلام کے خاندان، ان کے ساتھیوں یا کسی بھی خلیفہ کی بےحرمتی) ہیں۔ ان میں سے اکثر قوانین کے تحت جب الزام عائد کیا جاتا ہے تو پولیس کو اختیار ہے کہ وہ ملزم کو گرفتار کرسکتی ہے کسی وارنٹ کے بغیر اور اپنی تحقیقات مجسٹریٹ کی عدالت کے حکم کے بغیر تحقیقات کا آغاز کرسکتی ہے۔

جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں وفاقی شرعی عدالت 1980 میں قائم کی گئی تاکہ وہ ‘جائزہ لے سکے اور اس بات کا فیصلہ کرسکے کہ کوئی قانون یا اس کا پہلو اسلامی تعلیمات کے خلاف تو نہیں ہے۔’ جب تک حکومت سپریم کورٹ کی شریعت ایپلیٹ کورٹ میں کامیاب اپیل نہیں کرتی، وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے حتمی ہیں۔

وفاقی شرعی عدالت نے 1990 میی جماعت اسلامی کی ایک درخواست کے جواب میں فیصلہ دیا کہ 295۔ سی کے قانون کے تحت سزائے موت لازم ہے۔ اس وقت وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی مذہبی طور پر قدامت پسند حکومت نے اس فیصلے کے خلاف اپیل نہیں کی تھی جس سے یہ پاکستان کی تمام عدالتوں میں لازم قرار پائی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں