مفتی عزیز الرحمٰن 3 سال تک ہر ہفتے طالب علم سے زیادتی کرتا رہا، پولیس

لاہور (ڈیلی اردو) لاہور میں مدرسہ جامعہ منظور الاسلامیہ کے طالب علم کے ساتھ بدفعلی کے کیس میں پولیس نے تفتیشی رپورٹ میں کہا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سینیئر نائب صدر اور مفتی عزیز الرحمٰن اپنے طالب علم کو امتحان میں پاس کرنے کا وعدہ کرکے تین سال تک بدفعلی کا نشانہ بناتا رہا۔

پولیس کی جانب سے تفتیش مکمل کرنے کے بعد عدالت میں جمع کیے گئے چالان کی کاپی ڈان ڈاٹ کام کو دستیاب ہوئی ہے، جس کے مطابق طالب علم نے بتایا کہ انہوں نے 2013 میں مذکورہ مدرسے میں داخلہ لیا اور اس وقت سے تعلیم حاصل کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ امتحانات کے دوران مفتی عزیزالرحمٰن نے ان پر اور دیگر طلبا پر دوسرے کسی فرد کو امتحان میں بیٹھا کر نقل کرنے کا الزام عائد کیا، اس پر وفاق المدارس کی جانب سے ان پر بھی 3 سال کے لیے پابندی عائد کی گئی۔

چالان کے مطابق مفتی عزیزالرحمٰن اس کے بعد طالب علم سے بدفعلی کرتے رہے اور انہیں امتحان میں پاس کرنے میں مدد کرنے کی اُمید بھی دلاتے رہے۔

طالب علم نے کہا کہ لیکن تین سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود حالانکہ ہر جمعے کو میرے ساتھ بدفعلی کی جاتی تھی اور انہوں نے کوئی کام نہیں اور مجھے مزید بلیک میل کرنا شروع کیا۔

انہوں نے کہا کہ میں معاملہ جامعہ منظور الاسلامیہ کی انتظامیہ کے سامنے اٹھانے کی کوشش کی تو مفتی عزیزالرحمٰن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور انہوں نے یقین کرنے سے انکار کیا۔

پولیس کی تفتیش میں کہا گیا کہ اس کے بعد طالب علم مفتی عزیزالرحمٰن سے ان کے دفتر میں مسلسل ملتا رہا اور ان کی حرکتوں کو آڈیو اور ویڈیو کی شکل میں ریکارڈ کرتا رہا۔

پولیس نے کہا کہ مفتی عزیزالرحمٰن کو ثبوت انتظامیہ کو دکھائے جانے کے بعد مدرسے سے نکال دیا گیا، جس کے بعد ان کے بیٹوں نے طالب علم کو خاموش کروانے کے لیے مبینہ طور پر سنگین نتائج سمیت دیگر انداز میں دھمکانا شروع کیا۔

تفتیش کے مطابق ملزم عزیزالرحمٰن کے کمرے میں موجود صوفے اور پردے ویڈیو سے مشابہت رکھتے ہیں اور تفتیش میں ثابت ہوا ہے کہ ملزم عزیزالرحمٰن نے مدعی کے ساتھ بدفعلی کی اور جرم کا ارتکاب کیا۔

چالان میں کہا گیا کہ کیس میں دیگر ملزمان میں مفتی عزیزالرحمٰن کے تین بیٹے بھی مدعی کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دینے کی حد تک قصور وار پائے گئے۔

پولیس نے درخواست کی ہے طالب علم سے بدفعلی کے مقدمے کے ٹرائل میں نو افراد بطور گواہ عدالت میں پیش ہوں گے اور ملزمان کے خلاف گواہوں کو طلب کر کے ٹرائل شروع کیا جائے۔

لاہور کے جوڈیشل مجسٹریٹ رانا راشد نے مقامی عدالت میں کیس کی سماعت کی اور پولیس کو ملزم عزیز الرحمٰن کو فرد جرم کے لیے اگلی سماعت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

عدالت نے سماعت 4 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔

واقعے کا پس منظر

خیال رہے کہ کچھ عرصہ قبل سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں مفتی عزیز الرحمٰن کو ایک لڑکے سے مبینہ بدفعلی کرتے دیکھا گیا تھا جس کے بعد طالبعلم کی شکایت پر پولیس نے پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 377 (غیر فطری جرائم) اور دفعہ 506 (مجرمانہ دھمکی دینے کی سزا) کے تحت مقدمہ درج کر لیا تھا۔

17 جون کو درج پہلی انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے مطابق متاثرہ طالب علم نے بتایا کہ اسے جامعہ منظور الاسلامیہ میں 2013 میں داخلہ ملا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ امتحانات کے دوران مفتی عزیز الرحمٰن نے ان پر اور ان کے دوست طالب علم پر امتحان کے دوران کسی اور کو امتحان دلانے کا الزام لگایا تھا اور ساتھ ہی مجھ پر وفاق المدارس میں 3 سال تک امتحانات دینے پر پابندی عائد کردی گئی۔

شکایت کنندہ نے مزید کہا تھا کہ انہوں نے مفتی عزیز الرحمٰن سے معاف کردینے کی التجا کی لیکن مفتی عزیز الرحمٰن نے کہا کہ اگر جنسی حرکتوں سے انہیں ‘خوش’ کردوں تو کچھ سوچ سکتے ہیں۔

شکایت کنندہ نے مزید کہا تھا کہ ان کے پاس جنسی زیادتی کا نشانہ بننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، مفتی عزیز الرحمٰن نے دعویٰ کیا تھا کہ ان پر پابندی ختم ہوجائے گی اور امتحانات میں بھی پاس ہو جاؤ گے۔

شکایت کنندہ کے مطابق ‘تین سال گزر گئے اور اس عرصے میں ہر جمعے کو بدفعلی کرتے لیکن مجھ پر پابندی ختم ہوئی نہ امتحانات میں پاس ہوا بلکہ مزید بلیک میل کرنا شروع کردیا، مدرسے کی انتظامیہ کو شکایت کی تو انہوں نے ماننے سے انکار کردیا کہ مفتی عزیز الرحمٰن ‘بزرگ اور نیک سیرت شخص’ ہیں بلکہ انتظامیہ نے الٹا مجھے ہی جھوٹا قرار دے دیا۔

شکایت کنندہ نے بتایا تھا کہ اس کے بعد مفتی عزیز الرحمٰن کی بدفعلی کی ریکارڈنگ پیش کی اور وفاق المدارس العربیہ کے ناظم کو دکھائی جس کے بعد مفتی عزیز الرحمٰن نے مجھے جان سے مار دینے کی دھمکیاں دیں۔

مقدمے کے اندراج کے بعد 20 جون کو پولیس نے ملزم کو میانوالی سے دو بیٹوں سمیت گرفتار کرنے کے بعد لاہور منتقل کردیا گیا تھا۔

پاکستان میں ہر روز آٹھ بچے زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں، رپورٹ

پاکستان میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ‘ساحل’ کے مطابق پاکستان میں روزانہ آٹھ بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جِس میں 49 فی صد لڑکے اور 51 فی صد لڑکیاں شامل ہوتی ہیں۔

ساحل کی رپورٹ کے مطابق 2020 میں پاکستان میں بچوں کے خلاف 2900 بڑے جرائم رپورٹ ہوئے۔ جن میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی، اغوا اور کم عمری میں شادیوں جیسے جرائم شامل ہیں۔

واضح رہے کہ 2020 کی رپورٹ رواں برس اپریل میں شائع کی گئی ہے جس میں دعوٰی کیا گیا ہے کہ 2019 کے مقابلے میں 2020 میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز کی شرح میں چار فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ساحل کی رپورٹ کے مطابق بچوں کے ساتھ زیادتی کے رپورٹ ہونے والے کیسوں میں 985 کیس جنسی زیادتی، 787 ریپ، 89 غیر اخلاقی تصاویر (پورنوگرافی) اور 80 دوسرے کیس تھے۔

طالب علم سے زیادتی کے واقعہ کے بعد عزیز الرحمٰن کو منظور اسلامیہ مدرسے سے نکال دیا گیا تھا جب کہ وفاق المدارس نے بھی مدرسے کی رکنیت منسوخ کر دی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں