کوئٹہ: ایف سی کے مبینہ مارٹر گولے سے ہلاک بچوں کے لواحقین کا لاشوں کے ہمراہ دھرنا

کوئٹہ (ڈیلی اردو/وی او اے) بلوچستان کے ضلع کیچ کا ایک خاندان کوئٹہ کے سرد موسم میں اپنے دو کمسن بچوں کی لاشوں کے ہمراہ گزشتہ دو روز سے دھرنا دیے بیٹھا ہے۔

بدھ کو ہی بچوں کی لاشوں کو کیچ سے تقریباً 700 کلومیٹر سے زائد کا فاصلہ طے کر کے کوئٹہ لایا گیا ہے۔

یہ کہانی بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے ہوشاب کی در خاتون کی ہے جن کے دو بچے اتوار کو ایک دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے جب کہ ایک بچہ زخمی حالت میں کراچی کے ایک اسپتال میں زیرِ علاج ہے۔

در خاتون نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ اتوار کی صبح ان کے بچے گھر سے باہر کھیل رہے تھے کہ مبینہ طور پر فرنٹریئر کور (ایف سی) اہلکاروں کی جانب سے ایک مارٹر گولہ گھر کی طرف فائر کیا گیا۔

ان کے بقول گھر کے باہر اچانک دھماکے کی آواز سن کر وہ دروازے کی جانب دوڑیں جہاں گلی میں ان کے تین بچے مارٹر گولے کی زد میں آئے تھے۔

در خاتون نے بتایا کہ اس دھماکے میں ان کا ایک بیٹا موقع پر ہی ہلاک ہو گیا تھا جب کہ دیگر دو کو زخمی حالت میں تربت اسپتال منتقل کیا گیا جن میں سے ایک جانبر نہ ہو سکا۔

در خاتون مزید بتاتی ہیں کہ ان کا تیسرا بچہ شدید زخمی ہے جو کراچی کے ایک اسپتال میں زیرِ علاج ہے۔

در خاتون کے ہلاک ہونے والے دونوں بچوں کی عمریں چھ اور سات سال تھیں۔

دوسری جانب ہوشاب واقعے کے بعد ڈپٹی کمشنر کیچ نے کمشنر مکران ڈویژن کو ایک تحریری رپورٹ پیش کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہوشاب میں ہلاک ہونے والے بچوں کی اموات مارٹر گولے کے پھٹنے سے نہیں ہوئی۔

رپورٹ کے مطابق اس واقعے میں بچے ہینڈ گرنیڈ سے ہلاک ہوئے۔ بچے ہینڈ گرنیڈ کو کھلونا سمجھ کر اس کے ساتھ کھیل رہے تھی جس دوران دھماکہ ہوا۔

ڈپٹی کمشنر کیچ نے اپنی رپورٹ میں مزید لکھا ہے کہ کیچ کے علاقے پرکوٹگ ہوشاب میں صبح دس بجے کے قریب یہ واقعہ پیش آیا جس میں شر خاتون نامی ایک بچی اور اللہ بخش نامی ایک بچہ ہلاک ہوا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس واقعے کے حوالے سے مزید تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

logo
پاکستان
کوئٹہ: ایف سی کے مبینہ مارٹر گولے سے ہلاک بچوں کے لواحقین کا لاشوں کے ہمراہ دھرنا
اکتوبر 14, 2021
غلام مرتضیٰ زہری
کوئٹہ کے ریڈ زون کے قریب ہوشاب میں ہلاک ہونے والے بچوں کے لواحقین کا احتجاج جاری ہے۔
کوئٹہ کے ریڈ زون کے قریب ہوشاب میں ہلاک ہونے والے بچوں کے لواحقین کا احتجاج جاری ہے۔

تبصرے دیکھیں

کوئٹہ —
بلوچستان کے ضلع کیچ کا ایک خاندان کوئٹہ کے سرد موسم میں اپنے دو کمسن بچوں کی لاشوں کے ہمراہ گزشتہ دو روز سے دھرنا دیے بیٹھا ہے۔

بدھ کو ہی بچوں کی لاشوں کو کیچ سے تقریباً 700 کلومیٹر سے زائد کا فاصلہ طے کر کے کوئٹہ لایا گیا ہے۔

یہ کہانی بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے ہوشاب کی در خاتون کی ہے جن کے دو بچے اتوار کو ایک دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے جب کہ ایک بچہ زخمی حالت میں کراچی کے ایک اسپتال میں زیرِ علاج ہے۔

در خاتون نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ اتوار کی صبح ان کے بچے گھر سے باہر کھیل رہے تھے کہ مبینہ طور پر فرنٹریئر کور (ایف سی) اہلکاروں کی جانب سے ایک مارٹر گولہ گھر کی طرف فائر کیا گیا۔

ان کے بقول گھر کے باہر اچانک دھماکے کی آواز سن کر وہ دروازے کی جانب دوڑیں جہاں گلی میں ان کے تین بچے مارٹر گولے کی زد میں آئے تھے۔

در خاتون نے بتایا کہ اس دھماکے میں ان کا ایک بیٹا موقع پر ہی ہلاک ہو گیا تھا جب کہ دیگر دو کو زخمی حالت میں تربت اسپتال منتقل کیا گیا جن میں سے ایک جانبر نہ ہو سکا۔

در خاتون مزید بتاتی ہیں کہ ان کا تیسرا بچہ شدید زخمی ہے جو کراچی کے ایک اسپتال میں زیرِ علاج ہے۔

در خاتون کے ہلاک ہونے والے دونوں بچوں کی عمریں چھ اور سات سال تھیں۔

دوسری جانب ہوشاب واقعے کے بعد ڈپٹی کمشنر کیچ نے کمشنر مکران ڈویژن کو ایک تحریری رپورٹ پیش کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہوشاب میں ہلاک ہونے والے بچوں کی اموات مارٹر گولے کے پھٹنے سے نہیں ہوئی۔

رپورٹ کے مطابق اس واقعے میں بچے ہینڈ گرنیڈ سے ہلاک ہوئے۔ بچے ہینڈ گرنیڈ کو کھلونا سمجھ کر اس کے ساتھ کھیل رہے تھی جس دوران دھماکہ ہوا۔

ڈپٹی کمشنر کیچ نے اپنی رپورٹ میں مزید لکھا ہے کہ کیچ کے علاقے پرکوٹگ ہوشاب میں صبح دس بجے کے قریب یہ واقعہ پیش آیا جس میں شر خاتون نامی ایک بچی اور اللہ بخش نامی ایک بچہ ہلاک ہوا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس واقعے کے حوالے سے مزید تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

مظاہرے اور دھرنے میں شریک لوگ فوٹو وائس آف امریکہ
مظاہرے اور دھرنے میں شریک لوگ فوٹو وائس آف امریکہ
بلوچستان میں انسانی حقوق کی کارکن ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ کیچ کے علاقے ہوشاب میں پیش آنے والا یہ واقعہ پہلا نہیں۔

ان کے بقول اس سے قبل کراچی یونیورسٹی کے ایک نہتے طالب علم حیات بلوچ کو اس کے والدین کے سامنے گولیاں مار کر ہلاک کیا جاتا ہے اور بعد میں کہا جاتا ہے کہ حیات بلوچ پر فائرنگ کرنے والے اہلکار کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا۔

ماہ رنگ نے مزید کہا کہ ہوشاب میں مبینہ طور ایف سی کی جانب سے فائر کیے گئے مارٹر گولے سے بچوں کی اموات ہوئی جس کی ابتدائی رپورٹ لیویز نے بھی دی ہے، مگر ڈپٹی کمشنر نے ایک من گھڑت رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ اموات کھلونا بم پھٹنے سے ہوئی ہے۔

ماہ رنگ بلوچ نے مزید کہا کہ پورے صوبے کو چھاؤنی میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ کوئٹہ سے گوادر تک ہر جگہ ایف سی کی چیک پوسٹیں قائم ہیں جہاں آنے جانے والے لوگوں کو مبینہ طور پر تنگ کیا جاتا ہے۔

ہوشاب میں بچوں کی ہلاکت کے واقعے پر بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی ثناء اللہ بلوچ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ صوبے میں حکمرانی کے بحران کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک ماہ کے دوران تین تابوت بردار احتجاجی مظاہرہ کرنے والے وزیر اعلیٰ بلوچستان ہاؤس کے سامنے آئے ہیں۔ لیکن ایک بھی حکومتی نمائندہ متاثرین کے مسائل سننے اور حل کرنے کے لیے موجود نہیں۔

واحقین کا مطالبہ کیا ہے؟

کوئٹہ میں وزیر اعلیٰ ہاؤس کے قریب ہوشاب واقعے میں ہلاک ہونے والے بچوں کے لواحقین، سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور سول سوسائٹی کے کارکنوں کا دھرنا جاری ہے۔

دھرنے میں موجود ہلاک بچوں کی والدہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کیچ میں وہ انصاف کے حصول کے لیے احتجاج کرتی رہیں لیکن کسی نے آواز نہ سنی جس کے بعد مجبور ہو کر وہ لاشیں کوئٹہ لے آئی ہیں۔

در خاتون کے بقول، “ہمارا مطالبہ ہے کہ بچوں کے قتل کا مقدمہ ایف سی کے اہلکاروں کے خلاف درج کیا جائے اور ہمیں انصاف فراہم کیا جائے۔”

دوسری جانب صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو نے کیچ سے کوئٹہ آنے والے لواحقین کے احتجاج کا نوٹس لے لیا ہے۔

ذرائع کے مطابق وزیرِ داخلہ کی ہدایت پر مظاہرین سے مذاکرات کے لیے ضلعی انتظامیہ کے نمائندوں کو ذمے داری سونپ دی گئی ہے۔

ضلعی انتظامیہ وزیرِ اعلی ہاؤس کے قریب بیٹھے متاثرہ خاندان سے مذاکرات کر رہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں