سندھ: کشمور میں پسند کی شادی کرنیوالے جوڑے پر دستی بم کا حملہ

کراچی (ڈیلی اردو/بی بی سی) سندھ کے ضلع کشمور میں پسند کی شادی کرنے والے جوڑے پر دستی بم کا حملہ کیا گیا ہے جس میں لڑکی ہلاک جبکہ نوجوان شدید زخمی ہو گیا۔

کشمور کی تحصیل کندھ کوٹ کے علاقے بخشاپور کے علاقے گاؤں بڈھو بھنگوار میں جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب یہ واقعہ پیش آیا۔ بخشاپور پولیس کے ایس ایچ او حسین علی شاہانی کے مطابق گھر میں سوئے ہوئے میاں بیوی کی چارپائی پر دستی بم پھینکا گیا جس کے نتیجے میں زاہد علی بھنگوار شدید زخمی جبکہ ان کی بیوی زبیداں بروہی ہلاک ہو گئیں۔

کورٹ میرج پر دھمکیاں

بخشاپور پولیس کے ایس ایچ او حسین علی شاہانی کے مطابق چھ ماہ قبل زاہد علی بھنگوار اور مسمات زبیداں بروہی نے کورٹ میرج کی تھی جس کے بعد لڑکی کے ورثاء جوڑے کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہے تھے اور گذشتہ شب انھوں نے گھر پر دستی بم سے حملہ کیا ہے۔

پولیس کے مطابق ملزمان کی گرفتاری کے لیے نوابشاہ اور دیگر شہروں میں پولیس ٹیمیں روانہ کی گئی ہیں۔

نوجوان کے والد گلاب بھنگوار نے بی بی سی کو بتایا کہ گذشتہ شب وہ سوئے ہوئے تھے کہ ڈھائی بجے کے قریب دستی بم پھینکا گیا۔ اُنھیں تین افراد کے پیروں کے نشان ملے ہیں۔ بقول اُن کے اس سے قبل بھی ان کے گھر پر فائرنگ کی گئی تھی۔

رشتے کے لیے راضی نہیں ہوئے

گلاب بھنگوار پرائمری استاد ہیں جبکہ ان کا بیٹا کالج میں زیر تعلیم ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ لڑکے نے معلوم نہیں کیسے لڑکی کو پسند کیا۔ وہ رشتہ لے کر زبیدہ کے گھر گئے، معززین کو بھی ساتھ لے گئے لیکن وہ قبیلے سے باہر رشتے کے لیے راضی نہیں ہو رہے تھے۔ بعد میں اُنھوں نے مطالبہ کیا کہ بدلے میں رشتے دیں جو اُنھوں نے نہیں دیا۔

’لڑکا لڑکی کو لے کر عدالت میں چلا گیا اور شادی کر لی۔ چند ماہ وہ روپوش رہے اس کے بعد گھر واپس آ گئے۔ وہ دوبارہ لڑکی والوں کے پاس گئے کہ اب درگزر کریں لیکن لڑکی کے والد نے کہا کہ اُنھیں اپنی لڑکی واپس چاہیے۔ وہ کسی صورت میں ماننے کو تیار نہیں تھے اور بدلہ لینے کا کہہ رہے تھے۔‘

گھر جانے کی اجازت لینے پر قتل

یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے بخشاپور میں ہی 25 سالہ میمونہ سومرو کو بھی مبینہ طور پر غیرت کے نام گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ میمونہ کے والد اعجاز سومرو نے سسر اور دیوروں کے خلاف مقدمہ درج کروایا تاہم کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔

ایف آئی آر میں اُنھوں نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ان کی بیٹی کی 15 سال قبل ذاکر حسین سے شادی ہوئی تھی اس کی 10 سالہ بیٹی بھی ہے، اس کا شوہر بیمار رہتا ہے جبکہ سسر و دیگر اس پر تشدد کرتے تھے۔ وہ بیٹی کو لینے گئے لیکن اُنھوں نے اجازت نہیں دی اسی دوران بیٹی نے رو کر کہا کہ اگر آپ مجھے نہیں لے گئے تو یہ مجھے مار دیں گے۔

فریادی کے مطابق وہ رات اُنھوں نے وہاں ہی گزارنے کا فیصلہ کیا۔ شام ڈھلے وہ اپنی بیٹی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ سسر اور دیور اسلحہ لے کر آئے اور کہا کہ تم لوگوں نے ہمیں تنگ کیا آج اس کو مار دیں گے۔

’اُنھوں نے ہمیں دھمکی دی اور لڑکی کو گھسیٹتے ہوئے لے گئے اور اس پر فائر کیا جو اس کی آنکھ کے قریب لگا۔‘ اُن کے مطابق اُنھیں کمرے میں بند کر دیا گیا اور ملزمان لاش ساتھ لے گئے بعد میں اُنھیں گھر سے نکال دیا۔

اعجاز سومرو نے بتایا کہ اُنھوں نے مقامی معززین کو شکایت کی جس کے بعد لڑکی کی لاش ان کے حوالے کی گئی ہے۔

قتل کر کے لاشیں دریا میں بہا دی گئیں

انسانی حقوق کمیشن کے ضلعی کوآرڈینیٹر امداد کھوسو کے مطابق زبیداں بروہی اور میمونہ سمیت پانچ خواتین کو رواں ماہ غیرت کے نام پر قتل کیا گیا ہے۔

سکھر میں سندھ سہائی ستھ نامی تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے صرف چھ ماہ میں 66 خواتین اور 25 مردوں کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا جس میں سر فہرست ضلع کشمور تھا جہاں 13 خواتین قتل ہوئیں۔

دوسرے نمبر پر ضلع شکارپور ہے جہاں نو خواتین اور پھر جیکب آباد ہے جہاں آٹھ خواتین کو قتل کیا گیا۔

اس کے علاوہ گھوٹکی، خیرپور، سکھر اور لاڑکانہ میں بھی واقعات پیش آئے۔

تنظیم کی سربراہ عائشہ دھاریجو کے مطابق کشمور، شکارپور، گھوٹکی اور سکھر کے کچے کے علاقوں میں خواتین کو قتل کر کے لاش تک دریا میں بہانے کے واقعات بھی پیش آ چکے ہیں۔

قبائلی تنازعات اور قتل

امداد کھوسو کا کہنا ہے کہ کشمور میں کئی قبائل میں تنازعات جاری ہیں جس میں دشمنی کے علاوہ ایک قسم کا سماجی اور ذاتی قطع تعلق ہو جاتا ہے اور لوگ رشتے داریاں بھی کرنا پسند نہیں کرتے۔

’یہ کچے کا علاقہ ہے جہاں صرف 15 روز میں قبائلی تنازعات میں 13 سے 14 لوگ مارے جا چکے ہیں۔ اس بدامنی میں پولیس کوئی مؤثر کارروائی نہیں کرتی۔ ہر قبیلہ اپنا نام و ناموس پر مغرور ہے جس میں عورت اپنی مرضی کا اظہار یا شادی کرنے کا حق نہیں رکھتی۔‘

عائشہ دھاریجو کا کہنا ہے کہ ’پولیس اپنا کردار ادا نہیں کرتی جس وجہ سے مقتول خواتین کے ساتھ انصاف نہیں ہوتا اور معاملہ جرگوں میں چلا جاتا ہے۔ وومین کمپلین سیل کراچی، حیدرآباد، سکھر اور لاڑکانہ تک محدود ہیں، باقی جگہ یا موجود نہیں اور اگر ہیں تو غیر فعال ہیں۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں