تحریک لبیک کا لانگ مارچ: پولیس اور کارکنان کے درمیان جھڑپیں، 3 پولیس اہلکاروں سمیت 6 افراد ہلاک

لاہور (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان میں کالعدم تنظیم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں تین اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ جھڑپوں کے باعث ٹی ایل پی کے تین کارکن کے بھی ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔

ترجمان لاہور پولیس انسپکٹر رانا عارف کے مطابق لاہور کے علاقے ضلع کچہری کے قریب ٹی ایل پی کی ریلی میں شامل گاڑیوں کی ٹکر سے تین پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے۔ جنہیں اسپتال منتقل کیا گیا تھا جن میں سے دو ہلاک ہوئے۔

دوسری جانب پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ ٹی ایل پی کے ساتھ جھڑپوں میں تین پولیس اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔

وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے بیان کے مطابق پولیس اہلکار فرائض کی ادائیگی کے دوران ہلاک ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ قانون کی عمل داری کو ہر صو رت یقینی بنایا جائے گا۔

وزیرِ اعلیٰ نے متنبہ کیا کہ قانون ہاتھ میں لینے والے عناصر کے خلاف سخت کارروائی ہو گی۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں گے۔ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی-

قبل ازیں لاہور کے علاقے ایم اے او کالج کے قریب پولیس اور ٹی ایل پی کے درمیان تصادم ہوا تھا جس میں ایک ایس ایچ او سمیت 10 پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے۔

پولیس کا دعوٰی ہے کہ ٹی ایل پی کے مشتعل کارکنوں کے پاس ڈنڈے اور پتھر ہیں جن کا وہ آزادانہ استعمال کر رہے ہیں۔

ترجمان لاہور پولیس انسپکٹر رانا عارف کے مطابق پہلے ٹی ایل پی کے کارکنوں کی جانب سے ایک پولیس چوکی پر حملہ کیا گیا تھا جس کے بعد پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ کی۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ ٹی ایل پی نے پولیس اور انتظامیہ کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ پرامن رہیں گے البتہ بعد میں انہوں نے خود پُر تشدد ہنگامہ آرائی شروع کی۔

تاہم تحریک لبیک کا کہنا ہے کہ اس کے کارکنوں پر ان ہلاکتوں کا الزام بےبنیاد ہے۔

پولیس کی جانب سے مظاہرین کی جانب سے پولیس پر پٹرول بم پھینکنے کے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مشتعل ہجوم کی جانب سے ڈنڈوں کا آزادانہ استعمال کیا گیا۔

ٹی ایل پی نے جمعے کو لاہور سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ شروع کیا تھا جو ہفتے کی صبح لاہور کے علاقے راوی پل پر پہنچا جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ٹی ایل پی کے کارکنوں کے درمیان وقفے وقفے سے جھڑپیں ہوتی رہیں۔

بعد ازاں مارچ کے شرکا کالا شاہ کاکو تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔

موٹرویز پولیس کے ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ نیشنل ہائی وے اور موٹر وے بدستور کھلی ہوئی ہیں۔

ٹی ایل پی کا قافلہ نمازِ جمعہ میں لاہور کے علاقے یتیم خانہ چوک سے روانہ ہوا تھا جو راستے کی رکاوٹیں ہٹاتا ہوا۔ رات گئے داتا دربار پہنچا تھا۔

ٹی ایل پی کے کارکنان نے داتا دربار کے قریب کچھ دیر قیام اور نمازِ فجر کے بعد دوبارہ اسلام آباد کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔

تحریک لبیک پاکستان کے میڈیا کوآرڈینیٹر صدام بخاری کہتے ہیں کہ پولیس نے اسلام آباد جانے والی اُن کی پُر امن ریلی پر پہلے حملہ کیا۔

صدام بخاری کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں اب تک تنظیم کے درجنوں کارکن زخمی ہو چکے ہیں جن میں سے 10 افراد کی حالت تشویش ناک ہے۔

ٹی ایل پی کی مرکزی شورٰی کے رکن سرور حسین شاہ نے ایک بیان میں کہا کہ حکومت اپنا قبلہ درست کرے۔ اُنہیں اُن کے آئینی اور قانونی حق سے کوئی محروم نہیں کر سکتا۔

اُنہوں نے بیان میں مزید کہا کہ حکومت ایک طرف اُن سے مذاکرات کرتی ہے تو دوسری جانب اُن کے کارکنوں پر تشدد شروع کر دیا جاتا ہے۔

سرور حسین شاہ کا کہنا تھا کہ جب تک حکومت ٹی ایل پی کے سربراہ سعد حسین رضوی کو رہا نہیں کرئے گی مزید مذاکرات نہیں ہوں گے۔ اب سعد حسین رضوی ہی آ کر حکومت سے مذاکرات کریں گے۔

خیال رہے تحریک لبیک پاکستان اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور ناکام ہو گیا تھا۔

ٹی ایل پی نے سعد رضوی کی رہائی تک حکومت سے مذاکرات سے انکار کر دیا ہے۔

حکومت کی جانب سے ٹی ایل پی کے ساتھ مذاکرات کے لیے دو رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں پنجاب کے وزرا راجہ بشارت اور چوہدری ظہیر الدین شامل ہیں ـ

کالعدم ٹی ایل پی نے 19 اکتوبر 2021 کو پیغمبرِ اسلامؐ کے یومِ پیدائش پر 12 ربیع الاول کو ایک ریلی نکالی تھی جسے بعد ازاں دھرنے میں بدل دیا تھا۔

ٹی ایل پی کا مطالبہ ہے کہ حکومت فوری طور پر ٹی ایل پی کے امیر سعد حسین رضوی کو رہا کرے اور فرانس میں توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے باعث فرانس کے سفیر کو پاکستان سے نکالے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں