اسلام آباد (ڈیلی اردو) وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک کالج کے عملے اور طلبہ کو ہراساں کرنے اور دھمکیاں دینے کے الزام میں ایک معروف صحافی/ٹی وی اینکر کے بیٹے سمیت چار افراد کو گرفتار کرلہا گیا۔
رپورٹس کے مطابق اسلام آباد ماڈل کالج فار بوائز ایف-11/3 کے پرنسپل ڈاکٹر اسد فیض کی شکایت کے جواب میں شالیمار پولیس نے مقدمہ درج کرلیا۔
مقدمے میں دفعہ 506 (مجرمانہ دھمکی کی سزا)، 355 (شدید اشتعال انگیزی کے علاوہ کسی شخص کی بے عزتی کرنے کے ارادے سے حملہ یا مجرمانہ طاقت)، 354 (عورت پر مجرمانہ طاقت کے ساتھ اس کی عزت کو مجروح کرنے کے ارادے سے حملہ) اور پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی 542 (غلط قید کی سزا) دفعات لگائی گئی ہیں۔
امروز بوقت تقریباً 9/30 بجیدن ویگو ڈالا نمبریVE_016_ict پر چار لڑکے بنام محمد فائز جاوید-حارث امتیاز-علی فیضان اورفصل خان نامی لڑکے اسلام آباد کالج فار بوائز سیکٹرF 11/3 اسلام آباد کے مین گیٹ پر ائے اور گیٹ پر موجود چوکیدار اور لیڈی سٹاف سٹوڈنٹس ٹیچرز وغیرہ کو گالم گلوج شروع pic.twitter.com/nE0ZDSlgM9
— Israr Ahmed Rajpoot (@ia_rajpoot) November 12, 2021
بعدازاں پولیس نے چاروں افراد کو عدالت میں پیش کیا جہاں سے انہیں عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔
یہ ویگو گاڑی اینکر پرسن جاوید چوہدری کی ہے اور فائز نامی جس نوجوان کو پولیس ہتھکڑی لگا کر گاڑی میں بٹھا رہی ہے وہ جاوید چوہدری کا بیٹا ہے۔ آج عدالت نے فائز اور اسکے دوستوں کو جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھجوا دیا ہے۔ بچوں کی تربیت حلال پیسے سے کریں تاکہ وہ ان حرکتوں سے باز رہیں!! pic.twitter.com/uiGHhOLYin
— Umer Inam (@UmerInamPk) November 13, 2021
رابطہ کرنے پر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) صدر زون نوشیروان علی نے ڈان نیوز کو بتایا کہ ہفتے کی صبح ایک فون کرنے والے نے پولیس ہیلپ لائن کو اطلاع دی کہ ویگو میں سوار کچھ افراد ایف-11مرکز پر ایک لڑکی کو ہراساں کر رہے ہیں۔
فون کرنے والے نے پولیس کو گاڑی کے رجسٹریشن نمبر سے بھی آگاہ کیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اطلاع ملنے کے بعد فوری طور پر ایک پولیس ٹیم ایف-11 مرکز بھیجی گئی۔
اسی دوران تقریباً صبح 9 بجے پولیس کوایک اور کال موصول ہوئی جس میں بتایا گیا کہ کچھ افراد اسلام آباد ماڈل کالج فار بوائز میں گھس آئے ہیں اور عملے اور طلبہ کو تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
ایس پی کا کہنا تھا کہ جب پولیس وہاں پہنچی تو دیکھا کہ طالبعلموں اور ان کے والدین کا ایک ہجوم اکٹھا ہے، بعدازاں 4 افراد کو حراست میں لے کر ویگو سمیت شالیمار پولیس تھانے منتقل کردیا گیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’حراست کے وقت وہ افراد شراب کے نشے میں تھے جن کو طبی معائنے کے لیے ہسپتال بھی لے جایا گیا تھا‘۔
پولیس نے پہلے فون کرنے والے اس شخص سے بھی رابطہ کیا، جس نے ایف-11 مرکز پر لڑکی کو ہراساں کیے جانے کے بارے میں پولیس کو آگاہ کیا تھا۔
تاہم اس نے کہا کہ اس نے یہ واقعہ دیکھا تھا اور اس کی اطلاع پولیس کو دی تھی اور لڑکی کی شناخت کے بارے میں نہیں جانتا تھا۔