عاصمہ جہانگیر کانفرنس: ایک جرنیل 22 کروڑ عوام پر حاوی ہے، علی احمد کرد کا دھواں دار خطاب

لاہور (ڈیلی اردو/بی بی سی/وی او اے) ’انتشار مت پھیلائیں، کسی کی جرات نہیں عدلیہ پر دباؤ ڈالے، کسی سے کبھی ڈکٹیشن نہیں لی،‘ یہ الفاظ تھے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کے وکلا رہنما علی احمد کرد کی عدلیہ پر تنقید کے جواب میں۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں انسانی حقوق کے موضوع پر دو روزہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے پہلے روز چیف جسٹس کے علاوہ بعض سینیئر وکلا، ججز، صحافی اور سیاسی رہنما سمیت کئی اہم شخصیات موجود تھیں۔

اس کانفرنس میں عدلیہ کی کارگردگی پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر علی احمد کرد نے اپنے مخصوص انداز میں دھواں دار خطاب میں عدلیہ کی خوب خبر لی۔ علی کرد نے جب اپنی تقریر میں ’ایک جرنیل، ایک جرنیل، ایک جرنیل‘ کہا تو ان کے ساتھ کانفرنس میں دیگر وکلا نے نعرے بازی شروع کر دی۔

پھر سینیٹر نذیر تارڑ نے مداخلت کی اور شرکا سے کہا کہ وہ کانفرنس کے اختتام پر مخصوص سیاسی سیشن میں نعرے بازی کرسکتے ہیں، ابھی نہیں۔

علی کرد نے بات کا تسلسل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’ایک جرنیل 22 کروڑ عوام پر حاوی ہےایک جرنیل 22 کروڑ عوام پر حاوی ہے۔ یا تو اس جرنیل کو نیچے آنا پڑے گا یا لوگوں کو اوپر جانا پڑے گا۔ دو ہی صورتیں ہیں۔۔۔ تب برابری ہو گی۔‘

وکلا رہنما نے نشاندہی کی کہ پاکستان کی عدلیہ کو 126 نمبر پر ’جرنیلوں نے پہنچایا ہے۔ اس سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی ضرورت ہے جو ستر سال سے آنکھیں دکھا رہا ہے۔‘

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے علی احمد کرد نے کہا کہ ’ملک کے ساتھ مذاق ہو رہا ہے، بلوچستان میں لوگوں کو ایجنسیاں اٹھا کر لے جاتی ہیں۔‘

’کبھی کسی ادارے کی بات سنی نہ دباؤ لیا‘

مگر پھر چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے خطاب کے دوران کہا کہ وہ علی احمد کرد کے موقف سے متفق نہیں ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ‘کبھی کسی ادارے کی بات سنی اور نہ کبھی ادارے کا دباؤ لیا، مجھے کسی نے نہیں بتایا کہ فیصلہ کیسے لکھوں، کسی کو مجھ سے ایسے بات کرنے کی کوئی جرات نہیں ہوئی۔

’کسی نے میرے کام میں مداخلت نہیں کی، اپنے فیصلے اپنی سمجھ اور آئین و قانون کی سمجھ کے مطابق کیے۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ‘لوگوں کو غلط باتیں نہ بتائیں، انتشار نہ پھیلائیں، اداروں کے اوپر سے لوگوں کا بھروسہ نہ اٹھوائیں۔ پاکستان میں انسان کی نہیں قانون کی حکمرانی ہے۔‘

’ہم جس طرح سے کام کر رہے ہیں کرتے رہیں گے، ملک میں آئین و قانون اور جمہوریت کی حمایت کریں گے اور اسی کا پرچار کریں گے، کسی غیر جمہوری سیٹ اپ کو قبول نہیں کریں گے، ہم چھوڑ دیں گے اور ہم نے پہلے بھی چھوڑا۔ آج کے لیے اتنی بات کافی ہے۔‘

جب چیف جسٹس خطاب کرنے آئے تو پنڈال میں موجود چند نوجوانوں نے ملک کے قبائلی علاقے سے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی رہائی کے لیے نعرے لگائے تو سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے انھیں ایسا کرنے سے روک دیا۔

اس سے پہلے جب سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اس کانفرنس سے خطاب کے لیے آئے تو حاضرین نے تالیاں بجا کر ان کا بھرپور استقبال کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اپنے خطاب میں کہا کہ بانی پاکستان ’قائد اعظم نے کہا تھا کہ جمہوریت مانگنے سے نہیں ملتی، یہ عوام کا حق ہوتا ہے۔‘

واضح رہے کہ اس سے قبل اپنے خطاب میں علی احمد کرد نے سوال اٹھایا کہ ’ملک میں کون سی عدلیہ موجود ہے؟‘

’کیا اُس عدلیہ کی بات ہو رہی ہے جہاں لوگ صبح آٹھ بجے سے ڈھائی بجے تک انصاف کے لیے جاتے ہیں اور ڈھائی بجے لوگ سینوں پر زخم لے کر گھر کی راہ لیتے ہیں۔‘ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر نے سوال اٹھایا کہ ’کیا یہ عدلیہ انسانی حقوق کی حفاظت اور جمہوری اداروں کی حفاظت کرے گی؟‘

دوسری طرف چیف جسٹس نے علی احمد کرد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’عدالت میں آکر دیکھیں۔ عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہیں۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ‘آج تک کسی کی ڈکٹیشن دیکھی، سنی اور نہ ایسا کوئی اثر لیا۔‘

’یہی کردار میرے ججز کا ہے، مجھے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں نے ڈکٹیشن لی، میری عدالت لوگوں کو انصاف دیتی ہے۔ ہماری عدالت قانون کی پیروی کرتے ہوئے کام کر رہی ہے اور سپریم کورٹ کے ججز محنت کے ساتھ لوگوں کو انصاف فراہم کر رہے ہیں۔‘

’جو جج آزاد ہو، اس کے دباؤ میں آنے کا جواز نہیں‘

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ علی احمد کرد نے کانفرنس کا موضوع ہی تبدیل کر دیا ہے اور اعلان کیا کہ وہ اپنی تقریر کو اسی وجہ سے بدل رہے ہیں۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے علی احمد کرد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ کی تقریر سے پتا چلا کہ لوگ اور بار ایسوسی ایشنز ججز کے بارے کیا سوچتی ہیں۔

’کئی عدالتی فیصلے ماضی کا حصہ ہیں جنھیں مٹایا نہیں جا سکتا۔ وہ طے کر چکے ہیں کہ ماضی میں عدلیہ نے جو غلطیاں کیں، انھیں نہیں دہرائیں گے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جو جج آزاد ہو اس کے دباؤ میں آنے کا جواز نہیں۔ ہم سب ایک حلف کے پابند ہیں اور اپنی غلطیاں تسلیم کرنی چاہیں۔ میڈیا آزاد ہونا چاہیے، میڈیا آزاد ہو تو عدلیہ آزاد ہوتی ہے۔‘

نامور وکیل اور انسانی حقوق کی علم برادر عاصمہ جہانگیر کی یاد میں دو روزہ ’عاصمہ جہانگیر کانفرنس‘ لاہور میں جاری ہے جس میں پاکستان کی عدلیہ، مختلف بار ایسوسی ایشنز کے نمائندے، نامور وکلا، سیاست دان، صحافی اور مختلف ممالک کے سفیر شریک ہیں۔

رواں سال ہونے والی کانفرنس کا موضوع ’انسانی عظمت کو درپیش چیلنجز‘ ہے۔ منتظمین کے مطابق کانفرنس میں بھارت اور افغانستان سے آنے والے مندوبین ویزہ نہ ملنے کی وجہ سے شرکت نہیں کر پائے۔

چیف جسٹس آف پاکستان سے قبل خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ عدلیہ کا ہر جج اور فوج کا ہر اہلکار اپنے عہدے کا حلف لیتا ہے جس میں وہ یہ کہتا ہے کہ وہ آئین کی پاسداری کرے گا۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہو سکتا ہے جس کی عدلیہ دنیا کو بتاتی ہے کہ جمہوریت کیا ہے۔ 2017 کی عالمی درجہ بندی کے مطابق آزاد ذرائع ابلاغ کے حساب سے پاکستان دنیا کے 130ویں نمبر پر آتا ہے۔ عدالتی فیصلہ ہے اگر سرکاری میڈیا پر وزیرِ اعظم بطور پارٹی لیڈر تقریر کرتا ہے تو حزبِ اختلاف کو بھی اتنا ہی وقت ملنا چاہیے۔

افتتاحی سیشن سے یورپی یونین کی سفیر، کینیڈا اور برطانیہ کے ہائی کمشنر، نیدرلینڈز کی سفیر نے بھی خطاب کیا۔

تقریب کے دوسرے حصے میں میڈیا کی آزادی پر بات کرتے ہوئے ملک مشہور صحافی حامد میر کا کہنا تھا کہ کسی بھی شخص سے پوچھ لیں کہ کیا پاکستان میں میڈیا آزاد ہے؟ تو وہ ہنسے گا۔

اُن کے مطابق آزادی صحافت کے 37 دشمنوں کی فہرست جاری ہوئی جس میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے وزرائے اعظم بھی شامل ہیں۔

عاصمہ جہانگیر ایک نامور وکیل اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم رکن تھیں۔ ان کا انتقال 2018 میں ہوا تھا۔ عاصمہ جہانگیر مظلوم طبقوں کے لیے آواز اٹھاتی تھیں۔ عاصمہ جہانگیر کو انسانی حقوق کی ترجمانی کرنے پر بہت سے عالمی اعزازات بھی مل چکے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں