پروین رحمان قتل: دہشتگردی عدالت نے 4 ملزمان کو 2, 2 مرتبہ عمر قید کی سزا سنا دی

کراچی (ڈیلی اردو/بی بی سی) کراچی کی ایک انسداد دہشتگردی کی عدالت نے سماجی کارکن پروین رحمان کے قتل کے مقدمے میں چار ملزمان کو دو، دو مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ ان چار ملزمان رحیم سواتی، احمد خان، امجد اور ایاز سواتی پر دو، دو لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔

پانچویں مجرم عمران سواتی کو قتل میں دیگر مجرموں کی معاونت کرنے پر سات سال قید اور دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے۔

گذشتہ آٹھ برسوں میں مجسٹریٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک پروین رحمان کے قتل کے مقدمے کی درجنوں سماعتوں کے بعد بالآخر 17 اکتوبر کو ٹرائل کورٹ نے اس کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا جو آج یعنی 28 اکتوبر کو سنایا گیا ہے۔

یاد رہے کہ 13 مارچ 2013 کو سماجی کارکن پروین رحمان کو اپنے دفتر جاتے ہوئے ایک موٹر سائیکل پر سوار دو اسلحہ برادر افراد نے فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ یہ واقع کراچی کی مین منگھو پیر روڈ پر پیش آیا تھا۔

ملزمان موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے جبکہ 55 برس کی سماجی کارکن کو ان کے ڈرائیور نے شدید زخمی حالت میں عباسی شہید ہسپتال پہنچایا تھا، جہاں وہ علاج کے دوران دم توڑ گئیں۔ انھیں گردن میں گولیاں لگی تھیں۔

پروین رحمان کی بہن عقیلہ اسماعیل جو کہ اس مقدمے میں مدعیہ ہیں کے وکیل صلاح الدین پنہور نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس فیصلے سے مطمئن ہیں۔

دوسری طرف جب فیصلہ سنایا گیا تو مجرمان کو جیل سے عدالت لایا گیا تھا تاہم ان کے وکیل عدالت میں موجود نہیں تھے۔ کیس کی سماعت کراچی کی سنٹرل جیل کے اندر جوڈیشل کمپلیکس میں ہوئی۔

پروین رحمان کون تھیں؟

پروین رحمان مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کے دارالحکومت ڈھاکہ میں 22 جنوری سنہ 1957 میں پیدا ہوئیں اور پھر سقوط ڈھاکہ کے وقت ہونے والے قتل و غارت کے دلخراش مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے ہجرت کر کے کراچی پہنچیں۔

شاید یہی وجہ تھی کہ پھر وہ نہ صرف کراچی ہی کی ہو کر رہ گئیں بلکہ شہرمیں متوسط طبقے والی آبادیوں کی جدید طر زپر تعمیرنو کے کام میں ایسے جت گئیں کہ ان کی زندگی کے 31 سال شہر کے گردونواح میں قائم کچی آبادیوں کے گلی کوچوں میں گھومتے پھرتے گزر گئے۔

پروین رحمان نے ابتدائی تعلیم ڈھاکہ میں حاصل کی لیکن بی اے کی ڈگری انجئیرنگ (آرکیٹیکچر)میں کراچی کے دائو کالج آف انجنئیرنگ اور ٹیکنالوجی سے سنہ 1981 میں حاصل کی اوراگلے ہی سال وہ کراچی کی کچی آبادیوں میں رہنے والے غریب لوگوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم اورنگی پائلٹ پروجیکٹ (او پی پی ) میں بغیر تنخواہ کے انٹرن کے طور پر ملازمت اختیار کرلی۔

تین دہائیوں پر مشتمل اپنے کرئیر کے دوران پروین رحمان نے کراچی کے پرانے گوٹھوں، غیرقانونی طور پر چلانے جانے والے پانی کے ہائیڈرنٹس اورسرکاری زمینوں پربڑے پیمانے پر ہونے والی غیرقانونی تجاوزات کو ڈاکومنٹ کیا۔

وہ سنہ 1988 میں اورنگی پائلٹ پراجیکٹ ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کی ڈائریکٹر مقرر ہوئیں تو کچی آبادیوں میں تعلیم، نوجوانوں کی تربیت، پانی کی فراہمی اورمحفوظ ہاؤسنگ کے پروگرامز ان کے ذمے لگے۔

ہیومن رائٹس کمیشن کی سپریم کورٹ کے دروازے پر دستک

پروین رحمان کے قتل کی دلخراش واردات کے اگلے ہی دن اس وقت کراچی پولیس کے ڈی آئی جی جاوید اوڈھو نے ایک پریس کانفرنس کے دوران یہ دعویٰ کیا تھا کہ پروین رحمان کو مبینہ طورپر قتل کرنے والے ایک دہشت گرد، جس کی شناخت قاری بلال کے نام سے کرائی گئی، کو منگھوپیر تھانے کے ایس ایچ او اشفاق حسین بلوچ نے ایک مقابلے کے دوران ہلاک کر دیا ہے۔

لیکن واقعے کے چھ مہینے تک قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ’اصل‘ ملزمان کی گرفتاری میں ناکامی پر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے انصاف کے حصول کے لیے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ جس پر چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں قائم ایک بینچ نے کراچی کے ایک ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو اس واقعے کی جوڈیشل انکوائری کے لیے مقرر کیا۔

انکوائری کرنے والے جج نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ پولیس کی جانب سے اس قتل کے حقائق (یا شواہد) کو بلادریغ مسخ کر کے پیش کیا گیا۔ جوڈیشل انکوائری میں یہ بھی سفارش کی گئی کہ پروین رحمان کے قتل کیس کی تفتیش ازسرنو کسی مستعد، آزاد اور ایماندار پولیس افسرسے کرائی جائے۔

جوڈیشل انکوائری کی سفارشات کے پیش نظر سپریم کورٹ نے صوبہ سندھ کے محکمہ داخلہ کو حکم دیا کہ قتل کی ازسرنو تفتیش کے لیے مختلف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران پر مشتمل ایک جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی جائے۔

نومبر 2014 میں ایک اعلیٰ پولیس افسرنے سپریم کورٹ کو بتایا کہ پروین رحمان نے سرکاری زمینوں کا ایک نقشہ تیار کیا تھا، جن پر مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے غیر قانونی طور پر قبضے کر رکھے تھے۔

پروین رحمان قتل کیس میں گرفتاریاں

جے آئی ٹی نے سنہ 2015 میں پروین رحمان کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ایک ملزم احمد خان عرف پپو کشمیری کو مانسہرہ سے گرفتار کیا جبکہ سنہ 2016 میں کراچی سے ایک اور ملزم رحیم سواتی کو گرفتار کیا، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ماضی میں اس علاقے سے عوامی نیشنل پارٹی کی طرف سے کونسلر منتخب ہو چکے تھے، جہاں اورنگی پائلٹ پراجیکیٹ کا دفتر قائم تھا۔ وہ مبینہ طور پر منگھو روڈ پر پانی کا ایک غیرقانونی ہائیڈرنٹ چلا رہے تھے۔

اس کے بعد پولیس نے رحیم سواتی کے بیٹے عمران سواتی، ایاز شامزئی عرف سواتی، محمد امجد حسین شاہ کو بھی گرفتار کیا۔

مارچ 2018 میں کراچی کی ایک انسداد دہشت گردی کی عدالت نے پانچوں گرفتار ملزمان پر فرد جرم عائد کی لیکن انھوں نے صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے کیس لڑنے کا فیصلہ کیا۔

استغاثہ کے مطابق ملزمان ایاز شامزئی اور رحیم سواتی اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کے پیر آباد میں قائم دفتر کے قریب رہتے تھے اور انھوں نے مبینہ طور پر پروین رحمان سے ان کے دفتر کی جگہ ایک کراٹے سنٹر کھولنے کے لیے مانگی تھی لیکن انھوں نے انکار کر دیا تھا۔

استغاثہ کے مطابق پروین رحمان کے انکار کے بعد جنوری سنہ 2013 میں رحیم سواتی کے گھر پر ملزمان نے ایک میٹنگ کی جس میں ان کے قتل کی پلاننگ کی گئی اور بعد ازاں ملزمان نے مبینہ طور پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے مقامی لیڈر موسیٰ عرف محفوظ اللہ عرف بھولو کو پیسے دے کر ان کو قتل کروایا۔

پروین رحمان کی بہن عقیلہ اسماعیل، جو ان کے قتل کے کیس میں مدعی ہیں، کے وکیل صلاح الدین پنہورکے مطابق سات سال کے عرصے میں سپریم کورٹ کے احکامات پر سندھ حکومت نے چار جے آئی ٹیز تشکیل دیں لیکن ان کی مؤکلہ نے سندھ پولیس پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ وہ وفاقی حکومت کو حکم دے کہ وفاقی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے) پر مشتمل نئی جے آئی ٹی تشکیل دے جو ان کی بہن کے قتل کی ایک بار پھر ازسرنو تفتیش کرے۔

اپریل 2018 میں جے آئی ٹی نے یہ انکشاف کیا کہ تفتیش سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ پروین رحمان کے قتل سے کراچی میں لینڈ مافیا کو واضح طور پر فائدہ ہوا تھا۔

عقیلہ اسماعیل کے وکیل صلاح الدین پنہور کہتے ہیں کہ ملزم رحیم سواتی نے دوران حراست پولیس کے سینئیر سپرنٹنڈنٹ اختر فاروقی کے سامنے اپنے اقبالی بیان میں اقرار کیا تھا کہ پروین رحمان کا قتل منگھو پیر میں اے این پی کے مقامی رہنمائوں نے طالبان کو پیسے دے کر کروایا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ اقبالی بیان انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی شق 21 کے تحت پولیس کے ایس ایس پی کے روبرو قلمبند کیا گیا، بہت کم کیسزمیں ایسا ہوتا ہے کیونکہ عموماً ملزمان کا اقبالی بیان کرمنل پروسیجر کوڈ کی شق 164 کے تحت جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے قبلمبند کیا جاتا ہے۔‘

’لیکن پولیس افسرکے سامنے دیے گئے اس اقبالی بیان کی قانون کی نظر میں اتنی ہی اہمیت ہے جتنی جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے دیے گئے بیان کی۔‘

ٹرائل میں التوا

دسمبر سنہ 2018 میں مقدمے کی سماعت کرنے والی کراچی کی ایک انسداد دہشت گردی کی عدالت نے عقیلہ اسماعیل کی ایک درخواست مسترد کر دی جس میں یہ استدعا کی گئی تھی کہ پانچوں جے آئی ٹیز کے سربراہان اور ممبران کو طلب کر کے ان کے بیانات قلمبند کیے بغیر کیس کا فیصلہ نہ سنایا جائے کیونکہ قانون نافذ کرنے والے مختلف اداروں کے افسران، جو ان جے آئی ٹیزمیں شامل تھے، کے بیانات اہم ثبوت ہیں۔

اس سے قبل ملزمان نے اپنے بیانات قلمبند کرواتے ہوئے ایک مرتبہ پھر صحت جرم سے انکار کیا تھا اور استدعا کی تھی کہ انھیں ’جھوٹے‘ الزامات سے بری کیا جائے۔

تاہم عقیلہ اسماعیل نے سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر کر کے استدعا کی کہ جے آئی ٹیز کے افسران کے بیانات قلمبند کیے بغیر ٹرائل کورٹ کو مقدمے کا فیصلہ سنانے سے روکا جائے۔ اس پر سندھ ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کو درخواست پر حتمی فیصلے تک مقدمے میں حتمی دلائل سننے اور فیصلہ دینے سے روک دیا۔

فریقین کے وکلا کا کہنا ہے کہ کیس پہلے ہی مختلف جے آئی ٹیز کی جانب سے بار بار تفتیش کے باعث التوا کاشکار رہا جبکہ ہائیکورٹ کے حکم امتنیٰ کے باعث مقدمے کا ٹرائل مزید تقریباً ڈیڑھ سال تک زیر التوا رہا جبکہ اس وقت کیس استغاثہ اور ملزمان کے وکیل صفائی کی جانب سے حتمی دلائل سننے کے اہم مرحلے میں داخل ہونے والا تھا۔ لہٰذا اس عرصہ میں حتمی دلائل نہ سنے جا سکے۔

ستمبر 2020 میں سپریم کورٹ نے ٹرائل کورٹ کے جج کو ہدایت دی کہ پانچویں جے آئی ٹی کی جانب سے کیس کی تفتیش مکمل ہونے کے بعد ایک مہینے کے اندر وہ ٹرائل مکمل کر کے فیصلہ سنائے۔

لیکن کیس کے تفتیشی افسر نے فروری 2021 میں جے آئی ٹی کی رپورٹ پر مبنی حتمی چالان ٹرائل کورٹ میں جمع کرایا گیا۔

وکیل صفائی کا مؤقف

ملزمان کے وکیل صفائی ایڈووکیٹ شاہ امروز خان کا کہنا ہے کہ استغاثہ کے کیس میں جان نہیں۔

انھوں نے بتایا کہ پانچویں جے آئی ٹی نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ قتل ہونے سے 15 ماہ قبل پروین رحمان نے امریکی ریڈیو کے نمائندے فہد دیشمکھ کو ایک انٹرویو میں ملزم رحیم سواتی کو ’قبضہ مافیا اوربھتہ خور‘ کہا تھا اور الزام لگایا تھا کہ وہ ان کے دفتر کی زمین پر غیر قانونی قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اپنے انٹرویو میں پروین رحمان نے دیگر اہم شخصیات کے بھی نام لیے تھے جن سے جے آئی ٹی نے تفتیش بھی کی تھی۔ان میں بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض، متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار، اورنگی ٹاؤن سے ایم کیو ایم کے سابق ایم پی اے عبدالقدوس اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما تاج حیدر وغیرہ سے بھی تفتیش کی تھی لیکن جے آئی ٹی نے ان کو گواہ بنا کر عدالت میں پیش نہیں کیا اور نہ ہی ایسی شخصیات کے متعلق اپنی رپورٹ میں کوئی حتمی رائے دی۔‘

شاہ امروز خان کہتے ہیں کہ ’جے آئی ٹی کی رپورٹ میں کوئی ثبوت نہیں دیا گیا ماسوائے پروین رحمان کے ایک غیر ملکی ریڈیو کو دیے گئے انٹرویو کے اور محض ایک انٹرویو کی بنیاد پر تو ملزمان کو سزا نہیں دی جا سکتی۔‘

رحیم سواتی کے پولیس افسرکے روبرو مبینہ اقبالی بیان کے بارے میں ایڈووکیٹ شاہ امروز کہتے ہیں کہ اس بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں کیونکہ یہ بیان جوڈیشل مجسٹریٹ کے روبرو قلمبند نہیں کیا گیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ ہے جس میں عدالت نے یہ کہا کہ اقبالی بیان چاہے وہ پولیس کے انسپکٹرجنرل (آئی جی) کے روبرو ہی کیوں نہ قلمبند کیا گیا ہو، عدالت میں اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی نہ ہی ٹرائل کورٹ ایسے بیان کو ثبوت تصورکر سکتی ہے۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں