امریکا: ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کرنے والا ملزم ہلاک، یہودی مذہبی پیشوا سیمت 4 یرغمالی بازیاب

ٹیکساس (ڈیلی اردو/روئٹرز/اے ایف پی/اے اپی) مریکا میں ایک یہودی عبادت خانے میں چار افراد کو یرغمال بنانے کا واقعہ تقریباﹰ دس گھنٹے بعد مقامی وقت کے مطابق ہفتے کی رات اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ اس واقعے میں عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کرنے والا ملزم مارا گیا۔

https://twitter.com/AP/status/1482577450555084800?t=jkHNVPjLjSYpAdH5rrlFJA&s=19

امریکی ریاست ٹیکساس میں ایک یہودی عبادت خانے میں چار افراد کو یرغمال بنا لینے کا یہ واقعہ کل ہفتہ پندرہ جنوری کو قبل از دوپہر شروع ہو کر رات کے وقت اپنے اختتام کو پہنچا۔ اس خونریز واقعے میں ٹیکساس کے چھبیس ہزار کی آبادی والے شہر کَولی وِل میں ایک شخص نے ایک یہودی عبادت خانے میں گھس کر چار افراد کو اس وقت یرغمال بنا لیا تھا، جب وہاں عبارت جاری تھی اور اس کی انٹرنیٹ پر لائیو اسٹریمنگ بھی کی جا رہی تھی۔

ملزم نے لائیو اسٹریمنگ کے دوران جب یرغمالیوں کو اپنے قبضے میں لیا، تو اس کی اس کارروائی اور بعد میں کی جانے والی گفتگو کو بہت سے آن لائن شرکاء نے بھی لائیو دیکھا اور سنا۔

امریکی حکام نے اعلان کیا کہ تمام یرغمالیوں کو 12 گھنٹے کے تعطل کے بعد عبادت گاہ سے بحفاظت نکال لیا گیا ہے۔

امریکی فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) کے ڈیلاس میں موجود دفتر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ربی (یہودی مذہبی پیشوا) سیمت چاروں یرغمالیوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا، واقعہ کسی مستقل خطرے کا حصہ نہیں ہے۔

عبادت گاہ کی جانب سے زور دار دھماکے اور فائرنگ کی آواز سنائی دینے کے تقریباً 20 منٹ بعد ٹیکساس کے گورنر گریگ ایبٹ نے ٹوئٹ کیا کہ ‘دعائیں رنگ لے آئیں، تمام یرغمالی زندہ اور محفوظ ہیں’۔

ایف بی آئی نے کہا کہ عبادت گاہ کی حدود کی خلاف ورزی کے دانستہ فیصلے سے قبل یرغمال بنانے والے شخص کے ساتھ ان کے مذاکرات کار مسلسل رابطے میں تھے۔

ان اعلانات کے فوراً بعد قریبی شہروں فورٹ ورتھ اور ڈیلاس کے میڈیا نے اطلاع دی کہ یرغمال بنانے والا شخص مرچکا ہے جس نے اپنا نام محمد صدیقی بتایا تھا۔

عبادت گاہ پر حملہ آور شخص نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ وہ عافیہ صدیقی کا بھائی ہے اور اس نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔

عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ

یرغمال کنندہ ملزم امریکا کے لیے واضح طور پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کر رہا تھا۔ اس واقعے کی لائیو اسٹریمنگ منقطع ہو جانے سے پہلے تک کے واقعات کے مطابق ملزم نے، جو بظاہر نفسیاتی طور پر دباؤ میں تھا، پاکستان سے تعلق رکھنے والی سائنس دان عافیہ صدیقی کا ذکر کرتے ہوئے انہیں ‘بہن‘ کہہ رہا تھا۔ اس کا مطالبہ تھا عافیہ صدیقی کو رہا کیا جائے۔

بعد میں ملزم نے یرغمالیوں میں سے ایک کو رہا کر دیا تھا۔ تین یرغمالی آخر تک اس کے قبضے میں تھے۔ پھر کئی گھنٹے بعد امریکا کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کے اہلکاروں نے عمارت میں داخل ہو کر کارروائی کی، ملزم فائرنگ میں ہلاک ہو گیا اور تینوں یرغمالی رہا کرا لیے گئے۔

بعد ازاں ایف بی آئی نے صرف اتنا کہا کہ اس کارروائی کے دوران گولی لگنے سے اس واقعے کا ذمے دار ملزم ہلاک ہو گیا۔

ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ ملزم کو شناخت کر لیا گیا ہے تاہم اس کی شناخت یا ذاتی کوائف کے بارے میں فی الحال کچھ بھی نہیں بتایا جا سکتا۔

عافیہ صدیقی ٹیکساس ہی کی جیل میں

کَولی وِل کے یہودی عبادت خانے میں متعدد افراد کو یرغمال بنانے والے ملزم نے عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کیوں کیا، مختلف خبر رساں اداروں کے مطابق یہ بات ابھی تک واضح نہیں۔

عافیہ صدیقی وہ پاکستانی خاتون سائنس دان ہیں، جن پر دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ سے تعلق کا شبہ ہے۔ وہ افغانستان میں امریکی فوجی اہلکاروں کے قتل کی کوششوں کے جرم میں ٹیکساس کی ایک جیل میں چھیاسی برس قید کی سزا کاٹ رہی ہیں۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ کَولی وِل کا چھوٹا سا شہر ٹیکساس میں فورٹ ورتھ نامی اس شہر سے صرف 23 کلومیٹر دور ہے، جہاں اس وقت 49 سالہ عافیہ صدیقی ایک وفاقی جیل میں قید ہیں۔

ملزم کا ‘عافیہ صدیقی سے کوئی تعلق نہیں‘

عالمی وقت کے مطابق آج اتوار کو علی الصبح اپنے انجام کو پہنچنے والے اس واقعے میں پاکستان کی عافیہ صدیقی کا نام آنے کے بعد ان کے وکیل نے امریکی ٹیلی وژن ادارے سی این این کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا کہ عافیہ صدیقی کا ٹیکساس کے یہودی عبادت خانے میں متعدد افراد کو یرغمال بنانے کے ‘اس پورے واقعے سے قطعاﹰ کوئی تعلق نہیں‘ اور پولیس کے ہاتھوں مارے جانے والے ملزم کا اقدام بہرحال قابل مذمت ہے۔

اسی طرح اس واقعے کے بعد امریکی اسلامی تعلقات کی کونسل کی ہیوسٹن شاخ کے ایک عہدیدار جان فلائڈ نے بھی کہا، ”حملہ آور کا ڈاکٹر عافیہ صدیقی، ان کے بھائی محمد صدیقی یا ان کے پورے خاندان میں سے بھی کسی سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے برعکس اس حملہ آور کے بزدلانہ جرم نے ان قانونی کوششوں کو نقصان پہنچایا ہے، جو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو انصاف دلانے کے لیے کی جا رہی ہیں۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں