پاکستان: 75 برس میں توہین مذہب کے 1415 مقدمات درج، 18 خواتین سمیت 89 افراد ماورائے عدالت قتل

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان میں توہینِ مذہب کے مقدمات کے رجحان کے بارے میں اسلام آباد کے ایک تھنک ٹینک نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ملک کے قیام سے اب تک 1415 افراد پر توہینِ مذہب کے الزامات لگے یا ان پر مقدمات قائم کیے گئے ہیں، جن میں سے 89 افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا ہے۔

سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق توہینِ مذہب کا الزام لگائے جانے کے بعد ماورائے عدالت قتل کیے جانے والے افراد میں 18 خواتین اور 71 مرد شامل ہیں۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2011 سے 2021 کے دوران توہینِ مذہب کے الزامات کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے اور اس عرصے کے دوران 1287 شہریوں کے خلاف الزامات عائد کیے گئے۔

رپورٹ میں 1947 سے 2021 تک توہینِ مذہب کے مقدمات کا احاطہ کیا گیا ہے جس کے مطابق مجموعی طور پر توہینِ مذہب کے 1415 مقدمات درج کیے گئے جن میں 107 خواتین جب کہ 1308 مردوں پر الزام لگایا گیا۔ تھنک ٹینک نے یہ اعداد و شمار اخبارات میں شائع شدہ خبروں کی بنیاد پر مرتب کیے ہیں۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ توہینِ مذہب کے الزامات کے واقعات کی اصل تعداد ان اعداد و شمار سے زیادہ ہو سکتی ہے۔

پنجاب میں 70 فیصد مقدمات

اس رپورٹ کے مطابق توہینِ مذہب کے 70 فی صد مقدمات یعنی 1098 مقدمات پنجاب میں دائر کیے گئے جو کہ ایک تشویشناک رجحان ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس عرصے کے دوران وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں توہینِ مذہب کے 55 مقدمات درج ہوئے جو کہ خیبر پختونخوا اور آزاد کشمیر کے مجموعی مقدمات سے بھی زائد ہیں۔

پنجاب میں سب سے زیادہ توہینِ مذہب کے مقدمات کے بعد سندھ میں یہ تعداد 173، خیبر پختونخوا میں 33، بلوچستان میں 12 اور آزاد کشمیر میں 11 مقدمات سامنے آئے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ توہینِ مذہب کے غلط استعمال کو عدالتیں غیر قانونی اقدام قرار دے چکی ہیں اور ماضی میں اسلام آباد ہائی کورٹ یہ تجویز کر چکی ہے کہ توہینِ مذہب کے غلط الزام لگانے والوں کو بھی اسی قانون کے مطابق سزا دی جانی چاہیے۔

امریکہ کے مذہب کے حوالے سے بین الاقوامی آزادی کمیشن کے مطابق اس وقت پاکستان کی جیلوں میں 80 افراد توہینِ مذہب کے الزام میں قید ہیں جن میں سے نصف سے زائد ملزمان کو عدالت عمر قید یا پھر موت کی سزا سنا چکی ہے۔

’جب قانون میں خامی ہو تو غلط استعمال بھی ہوتا ہے‘

انسانی حقوق کمیشن پاکستان(ایچ آر سی پی) کی سابق چیئرپرسن زہرہ یوسف کہتی ہیں کہ یہ رپورٹ ہمارے قانون سازوں اور حکومتی شخصیات کے لیے تنبیہ ہے کہ توہینِ مذہب کے قانون کے غلط استعمال کے بڑھتے ہوئے غلط رجحان کو روکیں اور اگر یہ رجحان یوں ہی چلتا رہے گا تو مزید بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس رپورٹ کو دیکھا جائے تو جنرل ضیا الحق کے زمانے میں توہینِ مذہب کے قانون میں کی جانے والی ترامیم کے بعد سے مقدمات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہا کہ جب قانون میں خامیاں اور سقم ہوتا ہے تو اس کا غلط استعمال بھی کیا جاتا ہے۔

زہرہ یوسف نے کہا کہ اس قانون کے تحت اگرچہ تاحال کسی کو سزائے موت نہیں ہوئی تاہم 89 افراد کو محض الزام کی بنیاد پر ماورائے عدالت قتل کیا جا چکا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ سیالکوٹ میں توہینِ مذہب کے نام پر سری لنکا کے شہری کے حالیہ قتل کے واقعے کے بعد وزیرِ اعظم اور آرمی چیف کی سطح پر اس واقعے کی مذمت کی گئی البتہ 89 پاکستان کے شہریوں کے قتل پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔

’توہینِ مذہب کے قانون کا غلط استعمال ہوتا ہے‘

اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز کہتے ہیں کہ بعض لوگ توہینِ مذہب کے قانون کا غلط استعمال کرتے رہے ہیں اور اپنی ذاتی رنجشوں پر توہینِ مذہب کے غلط الزام لگاتے رہے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں قبلہ ایاز نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل میں یہ سوال اکثر و بیشر سامنے آتا ہے کہ توہینِ مذہب کے غلط استعمال کو روکا جائے اور سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کی پرتشدد ہجوم کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد اس موضوع پر خاصی بحث ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سری لنکن شہری کی ہلاکت کے واقعے سے بھی ثابت ہوا کہ ذاتی جھگڑے اور مفاد کی خاطر توہینِ مذہب کا غلط الزام لگا کر اسے بے دردی سے قتل کرکے لاش کو آگ لگا دی گئی۔

قبلہ ایاز نے کہا کہ اس حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل نے تجویز کر رکھا ہے کہ توہینِ مذہب کا غلط الزام لگانے والے کو بھی اسی قانون کے تحت سزا دی جانی چاہیے۔

وہ سمجھتے ہیں کہ اس بات کی نوبت نہیں آنی چایئے اور توہینِ مذہب کے قانون کے غلط استعمال سے قبل ہی اسے روکا جانا چاہیے کیوں کہ جب ایک شخص پر الزام لگا دیا جاتا ہے تو چاہے وہ عدالتوں میں غلط بھی ثابت ہو جائے تب بھی اس کی زندگی خطرے میں رہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے لیے انتظامی سطح پر ایسے اقدامات کیے جانے چاہیئں کہ توہینِ مذہب کے غلط الزامات لگائے ہی نہ جاسکیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں