روس یوکرین تنازع: پاکستان اور بھارت بظاہر ایک صفحے نظر آ رہے ہیں

جنیوا (ڈیلی اردو/بی بی سی) اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے یوکرین پر روسی حملے کے خلاف قرارداد 141 ووٹوں سے منظور کر لی ہے۔

اس قرارداد کی مخالفت میں تو پانچ ووٹ آئے مگر 35 ممالک نے سرے سے اس ووٹنگ میں حصہ ہی نہیں لیا جن میں انڈیا اور پاکستان بھی شامل ہیں۔

انڈیا اور پاکستان کی جانب سے یوکرین کے تنازعے پر اب تک بہت پھونک پھونک کر قدم رکھے جا رہے ہیں اور اقوامِ متحدہ کے حالیہ اجلاس میں ہونے والی ووٹنگ بھی اس کی عکاسی کرتی ہے۔

یاد رہے کہ اس قرارداد کے حق میں جنرل اسمبلی کے 141 رکن ممالک نے ووٹ کیا ہے، اس کی مخالفت میں پانچ ووٹ آئے جبکہ 35 ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

اس ووٹ سے قبل اقوامِ متحدہ میں یوکرین کے سفیر سرجی کسلٹسیا نے کہا تھا کہ ’روس نے یوکرین سے موجود ہونے کا حق چھین لیا ہے۔‘

اس موقع پر روسی سفیر ویسیلی نیبنزیا کا کہنا تھا کہ روس مشرقی یوکرین میں علیحدگی پسند تنازع حل کروانا چاہتا ہے۔ انھوں نے مغربی ممالک پر الزام عائد کیا کہ وہ ’کھلی اور مذموم دھمکیاں‘ دے رہے ہیں تاکہ دنیا کے ممالک کو اس قرار داد کے حق میں ووٹ دینے پر مجبور کیا جا سکے۔

یہ سنہ 1997 کے بعد اسمبلی کی پہلی ہنگامی میٹنگ تھی۔ اس قرارداد کے ذریعے روسی حملے کی مذمت کرتے ہوئے روس کو فی الفور اپنی افواج یوکرین سے واپس بلانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

پاکستان اور انڈیا کا کیا کہنا ہے؟

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خصوصی ہنگامی اجلاس سے خطاب میں کہا ہے کہ پاکستان اقوام متحدہ کے منشور کے بنیادی اصولوں پر یقین رکھتا ہے ’جن میں عوام کا استصواب رائے کا حق، طاقت کا عدم استعمال یا اسے بروئے کار لانے کی دھمکی نہ دینا، ریاستوں کی خودمختاری اور جغرافیائی سالمیت اور مخصوص تنازعات کا پرامن حل شامل ہے۔‘

منیر اکرم نے حالیہ واقعات کو ’سفارت کاری کی ناکامی کا مظہر‘ بھی قرار دیا اور کہا کہ وزیرِ اعظم عمران خان امید کا اظہار کر چکے ہیں کہ سفارت کاری سے فوجی تنازع سے بچا جا سکتا ہے۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو امید ہے کہ روس اور یوکرین کے نمائندوں کے درمیان شروع ہونے والی بات چیت کے نتیجے میں لڑائی کو ختم کرنے اور صورتحال کو معمول پر لانے میں کامیابی حاصل ہو گی کیونکہ سفارتی حل ’ناگزیر‘ ہے۔

اسی طرح اقوامِ متحدہ میں انڈیا کے مستقل مندوب ٹی ایس تریمورتی نے ووٹنگ سے انڈیا کے اجتناب کے بعد کہا کہ انڈیا کی پہلی ترجیح یوکرین میں پھنسے اپنے شہریوں بالخصوص طلبہ کو نکالنا ہے۔ اُنھوں نے جنگ زدہ علاقوں میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ یہاں امدادی کارروائیاں رکنی نہیں چاہییں۔

انڈیا نے بھی پاکستان کی طرح اُمید ظاہر کی کہ روس اور یوکرین کے درمیان مذاکرات کا دوسرا راؤنڈ نتیجہ خیز ثابت ہو گا۔

واضح رہے کہ اس سے قبل انڈیا نے سلامتی کونسل میں روس کے خلاف مذمتی قرارداد پر ہونے والی رائے شماری میں بھی حصہ نہیں لیا تھا۔

چنانچہ اب انڈیا اور پاکستان بھی یوکرین کے معاملے پر ایک ہی صف میں کھڑے نظر آ رہے ہیں۔

پاکستان کیوں غیر جانبدار رہنا چاہتا ہے؟

پاکستان میں قائم غیر ملکی مشنز میں سے 19 نے جنرل اسمبلی کے اجلاس کی شروعات سے قبل ہی ایک خط میں پاکستان پر اقوامِ متحدہ میں یوکرین کی حمایت کرنے پر زور ڈالا تھا۔

مگر اسی روز اعلیٰ ترین سرکاری حلقوں سے مصدقہ اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ پاکستان اس ووٹنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔ کم از کم دو اعلیٰ حکومتی عہدیداروں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ پاکستان اصولی مؤقف اختیار کرتے ہوئے کسی کی حمایت کرنا چاہتا ہے نہ مخالفت۔

ان اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کا کہنا تھا کہ روس اور یوکرین کو اپنے معاملات افہام و تفہیم سے حل کرنے چاہییں۔

پاکستان کے اس فیصلے کو کئی لوگ خوش آئند سمجھ رہے ہیں کہ ماضی کے برعکس پاکستان کسی ’سیاسی دھڑے‘ کا حصہ نہیں بن رہا بلکہ افہام و تفہیم سے معاملات سلجھانے کی تلقین کر رہا ہے۔

پاکستان کی طرف سے ایسا کرنا ایک حیران کن عمل بھی ہے کیونکہ اس سے پہلے پاکستان نے خطے میں سیاسی دھڑوں کا ساتھ دیا جبکہ ان کا ساتھ دینے کا براہِ راست اثر پاکستان کی معیشت اور ملک میں شورش کی شکل میں سامنے آیا۔ نتیجتاً پاکستان کو ایک وقت میں بین الاقوامی طور پر تنہا کیے جانے کا خطرہ بھی رہا۔

دو روز قبل پاکستان سینیٹ کی کمیٹی برائے اُمورِ خارجہ کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اس جنگ میں پاکستان کے براہِ راست مفادات نہیں ہیں۔ دوسری بات یہ کہ پاکستان چاہتا ہے کہ اس خطے میں اپنا کردار ادا کرے جس میں پاکستان کے تعلقات روس، چین اور وسطی ایشیا سے بھی ہیں۔ اور تیسرا یہ کہ پاکستان اب کسی قسم کی کشیدگی کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔ نہ کسی کی حمایت کرنا چاہتا ہے اور نہ کسی کی مخالفت کرنا چاہتا ہے۔‘

مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ یوکرین اور روس کے درمیان تنازع یورپ کی سرد جنگ کا حصہ ہے جو یوکرین میں جاری ہے۔

سرد جنگ کی اصطلاح سے پاکستان کی کوئی بہت اچھی یادیں وابستہ نہیں ہیں۔ چالیس کی دہائی سے 1991 میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے تک امریکہ اور روس کے درمیان جاری سرد جنگ میں پاکستان نے امریکی کیمپ کا حصہ بننے کو ترجیح دی تھی جبکہ انڈیا نے ہمیشہ خود کو غیر جانبدار رکھا۔

پاکستان نے سوویت یونین کے خلاف افغانستان کی جنگ میں بھی غیر روایتی طرز سے حصہ لیا اور یوں پاکستان اور سویت یونین، بعد میں روس سے تعلقات شدید سرد مہری کے شکار رہے۔ اس جنگ کے باعث پاکستان کو کئی مالی، معاشی، معاشرتی اور سکیورٹی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا جن میں کچھ اب تک جاری ہیں۔

چنانچہ اب پاکستان کے غیر جانبدار رہنے کے فیصلے کو کئی لوگ سراہ رہے ہیں۔ مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ پاکستان کا اس جنگ میں براہِ راست مفاد نہیں اور نہ ہی پاکستان اس کشیدگی کا حصہ بننا چاہتا ہے۔

اُنھوں نے کہا تھا کہ ’امریکہ کی حمایت اور اُن کا ساتھ دینے میں پاکستان خاص طور پر پیش پیش رہا۔ اس کے نتیجے ہمیں (پاکستان کو) صرف نقصان ہی ہوا۔ اور امریکہ نے ضرورت پڑنے پر ہمارا ساتھ نہیں دیا۔‘

انڈیا کے لیے پیچیدہ صورتحال

ایک طرف انڈیا اور چین کے پڑوس میں واقع بحرالکاہل کے خطے میں عالمی طاقتوں کا آپسی تناؤ بڑھ رہا ہے اور یہاں پر چار ملکوں کے اتحاد کواڈ (امریکہ، جاپان، انڈیا اور آسٹریلیا) قائم ہے تو وہیں روس کے پڑوس میں واقع بحرِ اوقیانوس کے گرد قائم ممالک کا اتحاد نیٹو روس کے لیے تشویش کا باعث ہے۔

مگر انڈیا کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے حال ہی میں کہا ہے کہ بحرالکاہل اور بحرِ اوقیانوس میں صورتحال ایک جیسی نہیں ہے۔

انڈیا کو چین کے ساتھ اپنے سرحدی تنازعے پر مغرب بالخصوص امریکہ کی حمایت بھی درکار ہے مگر وہیں یہ روس سے اسلحے کا ایک بہت بڑا خریدار بھی ہے۔

اور یہ بات واضح ہے کہ انڈیا کی جانب سے کسی بھی اسلحہ خریداری کی وجہ چین اور پاکستان ہی ہوتے ہیں۔ پاکستان اور چین میں بھی یہی صورتحال انڈیا کے متعلق ہے۔

یہ بات بھی نہایت اہم ہے کہ امریکہ نے روس سے اسلحہ سسٹمز خریدنے والے ممالک پر پابندیوں کا قانون منظور کر رکھا ہے مگر انڈیا کی جانب سے روس کا ایس 400 میزائل سسٹم خریدنے کے باوجود انڈیا اب تک امریکی پابندیوں سے بچا ہوا ہے۔

چنانچہ انڈیا بھی سفارتی طور پر ایک تنی ہوئی رسی پر چل رہا ہے جس میں اسے متعدد عالمی طاقتوں اور ایک سپرپاور کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کے درمیان ایسا توازن برقرار رکھنا ہے کہ دونوں اہم خطوں میں اس کے مفادات حاصل ہوتے رہیں۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا، امریکہ تعلقات پر کوئی طویل مدتی منفی اثر نہیں پڑے گا۔

سابق انڈین سفارت کار امریندر کھٹوا نے بی بی سی مانیٹرنگ کو بتایا تھا کہ ہتھیاروں کی درآمد میں کچھ چیلنجز ہو سکتے ہیں لیکن انڈیا اور امریکہ ایک دوسرے سے دور نہیں ہو سکتے، خاص طور پر تب جب چین انڈو پیسیفک میں قدم جمانے کی کوشش کر رہا ہو۔

چنانچہ دونوں پڑوسی ملک انڈیا اور پاکستان جن کے درمیان اب تک چار جنگیں لڑی جا چکی ہیں اور کئی مسلح تنازعات پیش آ چکے ہیں، اس وقت اپنے اپنے مفادات کے پیشِ نظر اس نئی عالمی بازی پر مہرہ بننے سے انکاری نظر آ رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں