کوئٹہ: دھماکے سے قبل ہزارہ برادری کے دو افراد کی ٹارگٹ کلنگ

کوئٹہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں فاطمہ جناح روڈ پر بدھ کی شب ایک ’بوٹ چپل‘ کی دکان کے باہر بہت سے لوگ نظر آ رہے ہیں پھر ایک پولیس والا تیزی سے باہر نکلتا ہے اور دائیں جانب قریب ہی کھڑی پولیس کی گاڑی کے پاس پہنچتا ہی ہے کہ چند سیکنڈ بعد اس دکان میں دھماکہ ہو جاتا ہے۔

یہ تمام مناظر اس واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں نظر آ رہے ہیں۔

https://twitter.com/PhilanthropistI/status/1499053148878557190?t=eXBli58NmPq07F1pTyxS1A&s=19

ڈی آئی جی کوئٹہ پولیس فدا حسین نے بتایا ہے کہ اس واقعے میں پولیس کے ڈی ایس پی محمد اجمل سمیت تین افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے دو افراد اسی دکان کو چلانے والوں میں شامل تھے۔

سول ہسپتال کوئٹہ کے ترجمان کے مطابق دھماکے کے بعد کم از کم 24 افراد کو سول ہسپتال کوئٹہ طبی امداد کے لیے منتقل کیا گیا ہے۔ ڈی آئی جی پولیس نے بتایا کہ زخمیوں میں بھی دو پولیس اہلکار شامل ہیں۔

دھماکے کے وقت دکان کے باہر لوگ کیوں جمع تھے؟

سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دھماکے سے قبل اس دکان کے باہر لوگ جمع تھے اور ایسی اطلاعات ہیں کہ دھماکے سے قبل بھی دکان میں کوئی واقعہ پیش آیا تھا جس وجہ سے وہاں لوگ اکٹھا تھے اور پولیس بھی موقع پر موجود تھی۔

بعض ایسی اطلاعات ہیں کہ دھماکے سے قبل نامعلوم افراد نے مبینہ طور پر دکان میں بیٹھے ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے دو افراد کو گولیاں ماری تھیں۔

ایس ایس پی کوئٹہ عبدالحق بلوچ نے تاحال دکان میں فائرنگ کی تصدیق تو نہیں کی تاہم ان کا کہنا تھا کہ دھماکے سے پہلے دکان میں کچھ ہوا تھا جس کے بارے میں تحقیقات جاری ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ وہ اس وقت اس بات کی تصدیق نہیں کر سکتے کہ آیا دھماکے سے قبل دکان میں فائرنگ ہوئی تھی لیکن ان کے مطابق دھماکے سے قبل دکان میں ضرور کچھ ہوا تھا جس کی وجہ سے لوگ دکان کے باہر جمع ہوئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس واقعے میں ملوث لوگ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا چاہتے تھے اس لیے پہلے واقعے کے بعد دھماکہ کیا گیا۔

دھماکے سے قبل پولیس اہلکار کیوں دکان سے تیزی سے بھاگا؟

دکان میں پیش آنے والے واقعے کے بعد جب ایس ایچ او سٹی پولیس سٹیشن اپنی گاڑی میں جائے وقوعہ پر پہنچے تو ایک پولیس اہلکار دکان میں گیا اور وہاں اس نے جو دیکھا وہ ایس ایچ او کو بتانے کے لیے گاڑی کی جانب بھاگا۔

اس پولیس اہلکار کے گاڑی تک پہنچنے کے چند سیکنڈ بعد دھماکہ ہو گیا۔ ڈی آئی جی کوئٹہ پولیس فدا حسین نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ دھماکے کے لیے دو سے ڈھائی کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ اس واقعے کے بارے میں مختلف پہلوﺅں سے تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔

دھماکے میں ہلاک ہونے والے کون ہیں؟

ایس ایس پی عبدالحق بلوچ نے بتایا کہ دھماکے میں ہلاک ہونے والے تینوں افراد کی شناخت ہو گئی ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں پولیس کے ڈی ایس پی محمد اجمل کے علاوہ ذوالفقار علی اور علی محمد نامی شخص شامل ہے۔

ذوالفقار علی اور علی محمد کا تعلق ہزارہ برادری سے تھا اور وہ فاطمہ جناح روڈ پر جوتوں کی اس دکان کو چلا رہے تھے۔ دکان میں دھماکے کے نتیجے میں بھڑکنے والی آگ کے باعث ان میں سے ایک شخص بری طرح جھلس گیا تھا۔

کوئٹہ شہر میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کو طویل عرصے سے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے تاہم ماضی کے مقابلے ٹارگٹ کلنگ کے ان واقعات میں کمی آئی ہے۔

ہلاک ہونے والے ڈی ایس پی جائے وقوعہ پر کیسے پہنچے؟

ایس ایس پی عبدالحق بلوچ نے بتایا کہ اس واقعے میں ہلاک ہونے والے ڈی ایس پی محمد اجمل سرکاری ڈیوٹی سرانجام دینے کے لیے وہاں نہیں گئے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ جس دکان میں دھماکہ ہوا وہ ڈی ایس پی محمد اجمل کے گھر کے قریب واقع ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ غالباً دکان میں پہلے واقعے کے بارے میں سن کر وہ وہاں پہنچے ہوں گے اور بعد میں جب دھماکہ ہوا تو وہ بھی اس کی زد میں آکر ہلاک ہو گئے۔

محمد اجمل اگرچہ خود بلوچ نہیں تھے لیکن انھوں نے دو مارچ کو بلوچ کلچر ڈے کی مناسبت سے اپنے دوستوں سے اپنی بعض تصاویر شیئر کی تھیں جن میں وہ روایتی بلوچی پگڑی پہنے ہوئے ہیں۔

ان کے دوست پولیس انسپکٹر عبدالحفیظ جاکھرانی نے ان کی یہ تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کی ہیں۔ رابطہ کرنے پر عبدالحفیظ نے ان کی موت پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ محمد اجمل نے یہ تصاویر انھیں بدھ کی دوپہر کو ہی بھیجی تھیں۔

انھوں نے کہا کہ ان دونوں نے حال ہی میں پولیس ٹریننگ کالج کوئٹہ میں اکٹھے ایڈوانس کورس مکمل کیا تھا اور تین فروری کو پاس آﺅٹ ہوئے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ محمد اجمل ایک باہمت اور بہادر پولیس افسر تھے۔

شیعہ ہزارہ نوجوانوں کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعہ پر مجلس وحدت مسلمین کا شدید ردعمل

سربراہ مجلس وحدت مسلمین (ایم ڈبلیو ایم) علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ فاطمہ جناح روڈ کوئٹہ پر دہشت گردی کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تشیع کے خلاف سرگرم عناصر کے سامنے قانون نافذ کرنے والے ادارے کیوں بے بس ہیں، دہشت گردی کا مکمل خاتمہ تکفیری دہشت گردوں کے خاتمے سے مشروط ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسلام کے نام پر کلمہ گوہوں کو ذبح کرنے والے دین اسلام کے چہرے پر بدنما داغ ہیں، دہشت گردی میں ملوث افراد کی فوری گرفتاری اور سخت سزاؤں کا مطالبہ کرتا ہوں۔

شیعہ ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ دوبارہ شروع ہونا تشویشناک ہے، ایم ڈبلیو ایم کوئٹہ

مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنماء اور امام جمعہ کوئٹہ علامہ سید ہاشم موسوی، ایم ڈبلیو ایم کوئٹہ کے جنرل سیکرٹری ارباب لیاقت علی ہزارہ، ڈپٹی جنرل سیکرٹری شیخ ولایت حسین جعفری اور ایم ڈبلیو ایم کوئٹہ کے دیگر اراکین نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئٹہ شہر میں شیعہ ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ ایک بار پھر شروع ہونا تشویشناک ہے۔ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ہمیں سکیورٹی فراہم کرے۔

انہوں نے کہا کہ گذشتہ روز پیش والا واقعہ دردناک ہے۔ سکیورٹی فراہم کرنا حکومت اور اداروں کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں سکیورٹی فراہم کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت سکیورٹی فراہم کرنے میں فیل ہو گئی ہے۔ ہم اپنے حق کے لئے احتجاج کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم شہیدوں کے لواحقین کے ساتھ ہیں۔ حکومت ایسے واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں