ایران قومی مفادات پر سمجھوتہ نہیں کریگا، علی شامخانی

تہران (ڈیلی اردو/ڈی پی اے) ایرانی سکیورٹی کے اعلیٰ عہدیدار علی شامخانی نے کہا ہے کہ امریکا عالمی جوہری ڈیل کی بحالی کے حق میں نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ واشنگٹن ’ناقابل قبول منصوبہ جات‘ پر اصرار کر رہا ہے۔ ادھر روس نے ایک نئی رکوٹ ڈال دی ہے۔

ایران کی سکیورٹی کے اعلیٰ عہدیدار علی شامخانی کے مطابق ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین ویانا میں جاری مذاکرات میں امریکا کا رویہ درست نہیں ہے۔ ان مذاکرات میں کوشش کی جا رہی ہے کہ سن دو ہزار پندرہ میں طے پانے والی عالمی جوہری ڈیل کو بحال کر لیا جائے۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتطامیہ نے اس عالمی ڈیل سے یک طرفہ علیحدگی اختیار کر لی تھی تاہم امریکہ میں تبدیلی حکومت کے بعد موجودہ صدر جو بائیڈن بظاہر اس ڈیل کی بحالی چاہتے ہیں۔

گیارہ ماہ کے طویل مذاکرات کے بعد کچھ امید دکھائی دی تھی تاہم روس کی طرف سے یوکرین پر حملے کے بعد صورتحال ایک مرتبہ پھر پیچیدہ ہو گئی ہے۔

روس کی طرف سے نئی رکاوٹ

ایران کے اہم اتحادی ملک روس نے مطالبہ کر دیا ہے کہ اس ڈیل کو حتمی شکل دیتے ہوئے ایسی اس میں ایسی کوئی شق نہیں ہونی چاہیے کہ یوکرین پر روسی حملے کے بعد روس اور ایران تجارت نہیں کر سکتے ہیں۔ مغربی ممالک یوکرین جنگ میں روس پر دباؤ بڑھانے کی خاطر اس پر پابندیاں عائد کر رہے ہیں۔

اس تناظر میں علی شامخانی نے کہا کہ امریکہ کی طرف سے سیاسی فیصلہ سازی کی عدم موجودگی کی وجہ سے جوہری مذاکرات پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ واشنگٹن حکومت دراصل اس ڈیل کی بحالی چاہتی ہی نہیں ہے۔

شامخانی نے الزام عائد کیا کہ امریکہ کی طرف سے جوہری ڈیل کو جلدی میں طے کرنے کی کوشش دراصل اشارہ ہے کہ وہ ایک جامع اور مضبوط ڈیل کے حق میں ہی نہیں ہے۔

’قومی مفادات پر سمجھوتہ نہیں‘

علی شامخانی نے اپنے ان خدشات کے حوالے سے کوئی تفصیلات نہیں بتائی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ عالمی جوہری ڈیل کی بحالی ایران کے میزائل یا خلائی پروگرام کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔ شام خانی کے بقول ایران اپنی دفاعی صلاحیتوں اور علاقائی پالیسیوں پر سجھوتہ نہیں کرے گا۔

ادھر یو ایس نائب سیکرٹری برائے سیاسی امور وکٹوریہ نولینڈ نے کہا ہے کہ اس عالمی جوہری ڈیل میں شمولیت سے روس اضافی فوائد حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔

دریں اثنا اس عالمی جوہری ڈیل کو بچانے کی کوشش کرنے والے یورپی ممالک بشمول جرمنی، فرانس اور برطانیہ عارضی طور پر مذاکراتی عمل سے الگ ہو گئے ہیں۔ ان ممالک کا کہنا ہے کہ اہم امور طے پا چکے ہیں اور اب حتمی فیصلہ امریکہ اور ایران نے ہی کرنا ہے۔

روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کی طرف سے نئے مطالبات پیش کیے جانے کے بعد ایرانی چیف مذاکرات کار علی باقری کانی ویانا سے واپس وطن لوٹ گئےجہاں وہ تہران حکومت سے مشاورت کریں گے۔ سکے۔ ساتھ ہی ایران نے واضح کیا ہے کہ ملکی مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں