پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں ’شیزوفرینیا کے مریض‘ کو توہین مذہب پر سزائے موت کا حکم

مظفر آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی ایک عدالت نے توہین مذہب کے الزام میں ایک شخص کو سزائے موت سنائی ہے تاہم اس کے بھائیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ ذہنی مرض میں مبتلا ہے اور وہ اس کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کریں گے۔

تفصیلات کے مطابق ضلع باغ کے علاقے دھیرکوٹ میں قائم ایڈیشنل ضلعی فوجداری عدالت نے سنیچر کو اپنی نوعیت کے پہلے فیصلے میں محمد شفیق خان کو سزائے موت کا حکم سنایا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ محمد شفیق خان پر توہین مذہب کی دفعہ 295 سی (پیغمبرِ اسلام کی شان میں کسی بھی قسم کی گستاخی) کے تحت درج مقدمہ میں الزام ثابت ہونے پر سزائے موت اور 10 لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی جاتی ہے۔ جرمانے کی عدم ادائیگی کی صورت میں مجرم ایک سال قید کی سزا بھگتے گا۔

تھانہ دھیرکوٹ میں 18 مئی 2020 کو درج مقدمہ نمبر 236/20 میں کہا گیا کہ ملزم (شفیق) نے ’کھلم کھلا نعوذ بااللہ اپنے آپ کو نبی پاک (پیغمبر اسلام) کی ذات سے منسوب کیا ہے۔ اپنی آئی ڈی سے اس عبارت کو سوشل میڈیا پر وائرل کیا۔‘

ان پر الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے ’نبی کی شان میں گستاخی کی۔‘

درج مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ مجرم نے سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹ میں دعویٰ کیا کہ اس پر ’وحی‘ آئی تھی۔

’بھائی شیزوفرینیا کے مرض میں مبتلا ہے‘

سزائے موت پانے والے قیدی کے بھائی محمد رفیق خان کے مطابق وہ اس فیصلے کے خلاف کشمیر ہائی کورٹ میں اپیل دائر کریں گے کیونکہ ان کا بھائی شیزوفرینیا کے مرض میں مبتلا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’مقدمہ درج ہونے سے قبل ہی اس کا علاج چل رہا تھا۔ تمام تر میڈیکل رپورٹس کے باوجود ان پر درج مقدمہ دباؤ کا نتیجہ ہے۔‘

رفیق کا کہنا ہے کہ ’میرا بھائی صرف میٹرک پاس ہے۔ اس کے تین کم عمر بچے ہیں۔ یہ سعودی عرب، سوڈان اور پاکستان میں محنت مزدوری کرتا رہا۔ اس کا سعودی عرب میں علاج چلتا رہا تھا۔ اسی بنا پر کسی بھی جگہ کوئی ملازمت بھی نہیں کرسکا ہے۔‘

شفیق کے ایک اور بھائی راجہ محمد ضمیر کہتے ہیں کہ ’میرا بھائی 2016 سے اپنے مکمل حواس میں نہیں ہے۔ اس کا ہم مختلف ہسپتالوں اور ڈاکٹروں سے علاج کروا رہے ہیں۔ اس کو علاج کے لیے کراچی تک لے کر گئے۔ مکمل ریکارڈ دستیاب ہے۔ اس مقدمہ کے درج ہونے سے پہلے بھی علاج چل رہا تھا۔ وہ اسلام آباد کے ہسپتال میں داخل تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ بھائی کی گرفتاری بھی ہسپتال سے دوران علاج ہوئی۔

’جو کچھ کہا گیا ہم اسے سپورٹ نہیں کرتے مگر یہ ضرور کہتے ہیں کہ خدارا اس کی دماغی حالت کا تو اندازہ کریں۔ اس کو تو اپنا کوئی ہوش نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہا ہے اور کیا کہہ رہا ہے۔‘

شفیق کے وکیل راجہ امتیاز خان ایڈووکیٹ کی رائے ہے کہ مقدمے میں عدالت کو مجرم کی دماغی حالت کو مدنظر رکھنا چاہیے تھا۔

’میڈیکل بورڈ کے اندر بھی کہا گیا کہ ملزم نفیساتی مریض ہے اور اس کو ایک لبمے علاج کی ضرورت ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’دوران ٹرائل استغاثہ کے گواہوں سے جب پوچھا گیا کہ کیا وہ جانتے ہیں کہ شفیق نفیساتی امراض کا شکار ہیں تو انھوں نے کہا کہ ہمیں معلوم نہیں ہے۔‘

قانونی طور پر کسی بھی جرم کے مرتکب شخص کی نفسیاتی اور دماغی صورتحال کو مدنظر رکھا جانا ضروری ہے۔

فروری 2021 کے دوران پاکستان کی سپریم کورٹ نے ذہنی معذور افراد کی سزائے موت روکنے کا فیصلہ کیا تھا۔

اس میں عدالت نے قرار دیا کہ اگر کوئی میڈیکل بورڈ اس بات کی تصدیق کر دے کہ مدعا علیہ جرم اور اس کی سزائے موت کے پیچھے جواز کو سمجھنے سے قاصر ہے، تو سزا پر عملدرآمد روک دیا جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں