کراچی: لسانی فسادات کے الزام میں 45 سے زائد افراد گرفتار

کراچی (ویب ڈیسک) ایڈیشنل آئی جی کراچی نے کہا ہے کہ پولیس نے گزشتہ رات فسادات کے الزام میں 45 سے زائد افراد کو گرفتار کیا ہے۔

حیدرآباد میں 12 جولائی کو چائے کی دکان پر ہاتھا پائی کے دوران نوجوان کی ہلاکت اور سہراب گوٹھ میں پُرتشدد مظاہرے سمیت دیگر واقعات کے نتیجے میں دو افراد ہلاک اور ایک نوجوان سمیت دو دیگر افراد زخمی ہوگئے تھے، جس کے بعد کچھ عناصر کی جانب سے احتجاج اور ہڑتال کے اعلان کرنے کے بعد جمعہ کو شہر کے کچھ علاقوں میں بے چینی کی صورتحال پیدا ہو گئی۔

مخصوص علاقوں میں تجارتی سرگرمیاں معطل رہیں، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے امن و امان برقرار رکھنے اور شہریوں کو تحفظ کا احساس دلانے کے لیے فلیگ مارچ بھی کیا۔

نماز جمعہ کے بعد سہراب گوٹھ کے علاقے میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے جہاں پولیس نے کچھ لوگوں کو حراست میں لے لیا۔

کراچی پولیس چیف جاوید اختر اوڈھو نے ڈان نیوز کو بتایا کہ سہراب گوٹھ کے قریب کچھ لوگوں نے ظہر کی نماز کے بعد ایک پرانی گاڑی کو نذر آتش کرنے کی کوشش کی اور دیگر املاک کو نقصان پہنچایا۔

انہوں نے کہا کہ پولیس نے فوری کارروائی کی اور تقریباً 10 سے 15 افراد کو حراست میں لے لیا۔

انہوں نے کہا کہ جمعرات کی شام سے 45 سے زائد افراد کو فسادات اور املاک کو نقصان پہنچانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حراست میں لیے گئے افراد کی واقعے کی جگہ سے حاصل کردہ ویڈیو کلپس کی مدد سے شناخت کی گئی ہے۔

سہراب گوٹھ واقعے کی ایف آئی آر درج

سہراب گوٹھ پولیس نے پولیس افسر سید علی رضا کے ذریعے ریاست کی جانب سے دو افراد کو مبینہ طور پر قتل اور دو کو زخمی کرنے کے الزام میں چار مشتبہ افراد اور 2 ہزار نامعلوم ‘شرپسندوں’ کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہیں۔

دریں اثناء، سہراب گوٹھ میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں میں ملوث افراد کے خلاف پولیس نے ریاست کی جانب سے پولیس افسر سید علی رضا کے ذریعے پرتشدد مظاہرے کے دوران جمعرات کی شام دو افراد کو ہلاک اور دو کو زخمی کرنے کے الزام میں چار مشتبہ افراد اور 2 ہزار نامعلوم شرپسندوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔

ایف آئی آر پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 147، 148، 149، 353، 324، 302، 186، 395، 109، 427 اور 337-ایچ کے تحت درج کی گئی ہے۔

شکایت کنندہ نے کہا کہ وہ ایس ایچ او سہراب گوٹھ زبیر نواز سمیت دیگر پولیس افسران کے ساتھ سرکاری گاڑی میں گشت کر رہے تھے کہ شام ساڑھے چار بجے کے قریب ملک آغا ہوٹل پہنچے جہاں انہوں نے مبینہ طور پر چار افراد کو دیکھا جن کی شناخت نعمت اللہ عرف عادل شاہ، شفیع اللہ، جمیل الکوزئی، اور ریاض خان کے نام سے ہوئی جو اشتعال انگیز نعرے لگاتے ہوئے لوگوں کی توجہ حیدرآباد میں پیش آنے والے واقعے کی طرف مبذول کراتے رہے۔

جب پولیس نے دیکھا کہ دوسرے لوگ بھی وہاں جمع ہونا شروع ہو گئے ہیں تو انہوں نے فوری طور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے 140 آنسو گیس کے شیل کسی بھی طلب کر لیے۔

اس دوران جذباتی طور پر اکسایا گیا ہجوم سپر ہائی وے کے قریب افغان کٹ پر جمع ہونا شروع ہو گیا اور مبینہ طور پر دوسروں کو بھی فسادات کے لیے اکسایا۔

ایف آئی آر کے مطابق انہوں نے پتھراؤ شروع کر دیا اور مرکزی شاہراہ پر عارضی رکاوٹیں کھڑی کر دیں جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ٹریفک جام ہو گیا۔

مظاہرین میں سے کچھ مبینہ طور پر مسلح تھے جبکہ دیگر نے لاٹھیاں، لوہے کی سیخیں اور پتھر اٹھا رکھے تھے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ مظاہرین نے شام 4 بج کر 45 منٹ پر کراچی بس ٹرمینل پر توڑ پھوڑ شروع کردی۔

انہوں نے وہاں سیکیورٹی کے لیے تعینات دو پولیس اہلکاروں کو قید کیا اور مبینہ طور پر اے ایس آئی محمد اعظم سے ایک سرکاری پستول چھین لیا۔ پولیس موبائل گشت سے مبینہ طور پر ایک سرکاری ایس ایم جی بھی چھین لی گئی۔

اس کے بعد شرپسندوں نے مبینہ طور پر پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کی جس کے بعد انہوں نے مشتعل افراد کو منتشر کرنے کی کوشش میں آنسو گیس کی شیلنگ کی۔

ایف آئی آر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شرپسندوں نے مبینہ طور پر مسافروں اور پیدل چلنے والے شہریوں سے قیمتی سامان چھین لیا اور سرکاری اور نجی املاک کو بھی کافی نقصان پہنچایا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ جب پولیس تاج پیٹرول پمپ پر پہنچی تو اطلاع ملی کہ شرپسندوں کی فائرنگ سے دو افراد کو گولی لگ گئی ہے اور دو زخمی ہو گئے ہیں۔

پولیس نے 14 ملزمان کو گرفتار کرکے ان کے قبضے سے لوہے کی سیخیں اور پتھر برآمد کرکے مختلف علاقوں کی طرف فرار ہونے والے شرپسندوں کو منتشر کردیا.

کراچی میں جلاؤ گھیراؤ کی رپورٹس: وزیر اعلیٰ کی شرپسند عناصر سے سختی سے نمٹنے کی ہدایت

وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے شہر قائد میں کسی جلاؤ گھیراؤ کی رپورٹس پر پولیس کو شرپسند عناصر سے سختی سے نمٹنے کی ہدایت جاری کردی۔

وزیر اعلیٰ ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق سید مراد علی شاہ نے پولیس کے اعلیٰ افسران کو ہدایات جاری کی ہیں کہ شہر میں اگر شرپسند عناصر کی جانب سے سڑک بند کرنے یا جلاؤ گھیراؤ کی کوشش کی گئی تو ان سے سختی سے نمٹا جائے۔

بیان میں کہا گیا کہ اگر کسی نے سرکاری یا نجی املاک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو اس کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائے کیونکہ شہر میں افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ سڑکیں بند کی جائیں گی تو ایسا کرنے کی کسی کو بالکل اجازت نہ دی جائے۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ حکومت نے تمام متعلقہ افراد سے اس معاملے پر بات چیت کی ہے اور تمام فریقین اس قسم کے عمل سے لاتعلقی کا اظہار کر رہے ہیں۔

سید مراد علی شاہ نے پولیس کو ہدایت کی کہ پولیس اور ضلعی انتظامیہ شہر میں معمول کی زندگی یقینی بنائیں اور اس معاملے میں کسی قسم کی شرپسندی یا انتظامیہ کی جانب سے غفلت برداشت نہیں کی جائے گی۔

قوم پرست جماعتوں کو آگے بڑھ کر امن کا پیغام دینا چاہیے، شرجیل میمن

دوسری جانب کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے کہا کہ قانون سب کے لیے برابر ہے، کسی کو بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ حیدر آباد میں ہوٹل پر ہونے والے جھگڑے میں جو قتل ہوا اس پر پختون کمیونٹی کے رہنما شاہی سید نے مذمت کی اور کہا کہ جو بھی قتل میں ملوث ہیں ان کو گرفتار کرکے امن و امان کی صورت حال برقرار رکھی جائے۔

شرجیل میمن نے کہا کہ جئے سندھ قومی محاذ کے چیئرمین صنعان خان قریشی نے بھی پریس کانفرنس کرکے اس واقعے کی مذمت کی اور امن و امان برقرار رکھنے پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ تمام جماعتیں امن چاہتی ہیں لیکن چند شرپسند عناصر ایسے ہیں جو اس واقعے کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور ہم نے صبر کا مظاہرہ کیا ہے، لیکن کل الآصف اسکوائر سہراب گوٹھ میں جو کچھ ہوا اس میں ملک کی ایک بڑی تنظیم کے چند عناصر شامل تھے جو لوگوں کو غلط راہ پر لے کر آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ جماعت اس وقت حکومت میں نہیں ہے لیکن ایک صوبے میں اس کی حکومت ہے اور ان عناصر کی تصاویر بھی موجود ہیں تو ہم ان تمام لوگوں سے کہنا چاہتے ہیں جن سے اس پر بات ہوئی ہے کہ وہ اپنی صفوں میں ایسے افراد کو تلاش کریں جو اس کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔

شرجیل میمن نے کہا کہ سندھ پرامن اور صوفیوں کی سرزمین ہے اور ہمیشہ پرامن رہنے کی روایت قائم کی ہے اور صوبہ سندھ کبھی بھی لسانیت پر یقین نہیں رکھتا لیکن اگر کوئی واقعہ ہوا تو حکومت سندھ نے فوری کارروائی کرکے ملوث افراد کو گرفتار کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ایک گلدستہ ہے اور اس میں رہنے والے اور مختلف زبانیں بولنے والے آپس میں بھائی بھائی ہیں تو جو لوگ گڑبڑ کرنا چاہتے ہیں ان پر گہری نظر ہے اور حکومت ان کو ہرگز نہیں چھوڑے گی۔

صوبائی وزیر نے کہا کہ آج سوشل میڈیا پر یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ شہر میں جلاؤ گھیراؤ ہونا ہے مگر جب پولیس سے بات کی تو معلوم ہوا کہ جن سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے اس طرح کی پوسٹس شیئر کی گئیں ان میں چند لوگوں کی موت واقع ہو چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا کی تمام قوم پرست جماعتوں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اس وقت آگے بڑھیں اور امن کا پیغام دیں۔

آغا سراج خان درانی سے پختون برادری کے 19 رکنی وفد کی ملاقات

ادھر حیدر آباد واقعے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال سے متعلق قائم مقام گورنر سندھ آغا سراج خان درانی سے شفیع اللہ کی قیادت میں پختون برادری کے 19 رکنی وفد نے ملاقات کی اور اس حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔

ملاقات میں قائم مقام گورنر آغا سراج درانی نے کہا کہ سندھ صوفیا اور اولیائے کرام کی سرزمین ہے، سندھ میں تمام قومیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد آباد ہیں اور پختون برادری سندھ میں مختلف کاروبار سے منسلک ہے اور صوبے کی معیشت میں ان کا اہم کردار ہے۔

آغا سراج درانی نے کہا کہ چند شرپسند عناصر صوبے میں لسانی فساد کروانے کی سازش کر رہے ہیں، کسی بھی انسان کا قتل انتہائی افسوس ناک اور قابل مذمت فعل ہے لیکن اسی طرح کسی کی املاک کو نقصان پہنچانا اور جلاؤ گھیراؤ بھی قابل مذمت عمل ہے۔

انہوں نے کہا کہ صوبے میں بسنے والی تمام قومیتوں سے اپیل ہے کہ وہ تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کریں، افواہوں پر کان نہ دھریں، حکومت امن و امان برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گی۔

اس موقع وفد نے قائم مقام گورنر سندھ کو صوبہ کے امن کے لیے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کروائی۔

وفد کے سربراہ شفیع اللہ نے کہا کہ پختون امن پسند کمیونٹی ہے اور صوبہ سندھ کو اپنا گھر سمجھتی ہے اور صوبے کے امن کے خلاف کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

کراچی میں پختون کمیونٹی کی جانب سے جرگے کی افواہیں

دوسری جانب ‏سندھ بھر میں لسانی تضاد کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال کے بعد سندھ بھر میں حالات کشیدہ ہوئے اور اسی دوران سماجی روابط کی ویب سائٹس پر گردش کرنے والی خبروں کے مطابق کراچی میں پختون قومی جرگہ نے بنارس قائد آباد، ملیر ہائی وے، کمیاڑی شیر شاہ، ہاکس بے، حب روڑ ، لیاری، لانڈھی، گل احمد، بھنیس کالونی، نوری آباد، پختون آباد، ناظم آباد سمیت پورے کراچی میں جمعہ کی نماز کے بعد کراچی بند کرنے کی کال دی ہے۔

سندھ بھر میں عمل اور ردعمل

حیدرآباد میں ہوٹل پر ہاتھا پائی کے بعد نوجوان کے قتل کے نتیجے میں پیش آنے والے ردعمل اور اس کے بعد گزشتہ رات سہراب گوٹھ میں پرتشدد مظاہرے کے تناظر میں نسلی گروہوں کی جانب سے احتجاج اور ہڑتال کے اعلان کے بعد کراچی کے کچھ علاقوں میں بے چینی کی صورتحال پیدا ہو گئی۔

نوجوان بلال کاکا کے قتل کے بعد سندھ بھر میں افغان اور پشتون کمیونٹی کے چائے کے دکان اور دیگر کاروبار مکمل طور پر بند کروا دئے گئے جبکہ متعدد مقامات پر توڑ پھوڑ بھی ہوئی۔

قوم پرست کارکنان کے اس ردعمل کے بعد بلوچستان کے علاقے ژوب میں پختون کمیونٹی کی جانب سے سندھی کمیونٹی کے افراد کو گاڑیوں سے اتار کر ردعمل میں تذلیل کرتے ہوئے واپس سندھ جانے کو کہا گیا اور پھر سہراب گوٹھ میں شرپسندوں کی جانب سے خواتین سمیت شہریوں کو پریشان کرنے اور ان کے ساتھ بدسلوکی کا واقعہ پیش آیا۔

پختون کمیونٹی کے اس ردعمل کے بعد پھر راتوں رات قومپرست کارکنان نے نوناری سی این جی پر قومی شاہراہ کو مکمل بند کردیا جس کی وجہ سے ٹریفک کی روانی معطل ہوگئی جبکہ مسافروں کو بھی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔

موجودہ صورتحال میں بھی سندھ بھر میں پختون اور افغان کمیونٹی کی ہوٹلوں اور دیگر کاروبار بند کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

سندھ کے مختلف علاقوں بشمول سکرنڈ، مورو، حیدرآباد، لاڑکانہ، شہداد پور، سکھر اور نوشہرو فیروز میں گزشتہ دو دن سے پختون اور افغان کمیونٹی کی چائے کی دکانیں اور کاروبار بند ہے جبکہ مشتعل افراد نے کئی دکانوں کو نقصان بھی پہنچایا۔

سندھ بھر میں متعدد علاقوں میں احتجاجی مظاہرے، دھرنے اور جلوس بھی نکالے جا رہے ہیں اور چائے کے دکانوں سمیت دیگر کاروبار کو بھی جبری طور پر بند کروایا جا رہا ہے۔

بلال کاکا کا قتل

خیال رہے کہ کشیدگی کا آغاز اس وقت ہوا جب 12 جولائی کو حیدرآباد میں سپر سلاطین ہوٹل پر جھگڑے کے نتیجے میں ایک شہری 35 سالہ بلال کاکا کو لوہے کی سلاخوں سے بے دردی سے مارا گیا، مقتول کو نیو سعید آباد کے گاؤں فقیر محمد کاکا کے قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

جھگڑے میں بلال کاکا کے پانچ ساتھی زخمی ہو گئے تھے جس پر قوم پرست جماعتوں کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آیا جن کا خیال تھا کہ حملہ آور افغان شہری تھے۔

واقعے کے بعد ملزمان کو گرفتار کیا گیا اور گرفتار ملزم شاہ سوار پٹھان کو بھی لڑائی کے دوران چوٹیں آئی تھیں۔

اس واقعے کی ایک ویڈیو وائرل ہونے کے بعد شدید ردعمل سامنے آیا، ویڈیو میں جھگڑے کے وقت ایک پولیس موبائل اور چند پولیس اہلکاروں کو ہوٹل کے باہر دیکھا گیا اور فائرنگ کی آواز بھی سنائی دے رہی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں