عراق: بغداد میں مقتدیٰ الصدر کے ہزاروں حامیوں کی ریلی

بغداد (ڈیلی اردو/اے پی/روئٹرز/اے ایف پی) عراق کے دارالحکومت بغداد میں لاکھوں شیعہ مسلمانوں نے چلچلاتی دھوپ میں ایک زوردار ریلی نکالی۔ یہ ریلی عراق کے طاقتور شیعہ عالم مقتدیٰ الصدر کے حامیوں کی تھی تاہم وہ خود اس میں پیش نہیں ہوئے۔

گزشتہ برس عراق میں پارلیمانی انتخابات کے بعد حکومت بنانے کی ناکام کوششوں کے درمیان ہی 15 جولائی جمعے کے روز شیعہ عالم مقتدیٰ الصدر کے لیے طاقت کا مظاہرہ کرنے کے مقصد سے دارالحکومت بغداد میں ان کے لاکھوں حامی نماز کے لیے جمع ہوئے اور ایک ریلی نکالی۔

ان کے بیشتر حامی نمازیوں نے سفید لباس پہن رکھا تھا اور چلچلاتی دھوپ کے میں ہاتھوں میں قومی پرچم لیے ہوئے مرکزی شہر کی الفلاح نامی معروف راستے کو اپنے مظاہرین سے بھر دیا۔ یہ علاقہ مقتدی الصدر کے حامیوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔

پارلیمانی انتخابات میں مقتدی الصدر کا بلاک سب سے بڑا سیاسی دھڑا بن کر ابھرا تھا، تاہم جب سنی اور عراقی جماعتوں کا ایک اتحاد اقتدار میں شراکت داری کے معاہدے پر پہنچنے میں ناکام رہا، تو انہوں نے اپنے قانون سازوں کو اجتماعی طور پر مستعفی ہونے کا حکم دے دیا۔

شیعہ عالم اقتدار میں شراکت داری کے معاہدے کو تسلیم کرنے کے حامی تھے تاہم اس میں ناکامی کے بعد انہوں نے اپنے تمام ارکان سے مستفعی ہونے کا حکم دیا۔ مقتدی الصدر اپنے حریفوں کو ایران کے حمایت یافتہ شیعہ گروپوں سے الگ کرنا چاہتے ہیں۔

گرچہ الصدر نے خود اس نماز جمعہ میں شرکت نہیں کی، لیکن اس بڑے اجتماع نے اس بات کو ثابت کر دیا کہ ان کی سیاسی حمایت کی بنیادیں کافی مضبوط ہیں اور ان میں اب بھی کسی بھی سیاسی عمل میں خلل ڈالنے کی صلاحیت موجود ہے۔

مقتدی الصدر چاہتے کیا ہیں؟

شیخ محمود الجیشی نے نماز جمعہ کی امامت کی اور خطبے کے دوران مقتدی الصدر کی ایک تحریر پڑھ کر سنائی جس میں انہوں نے ایرانی حمایت یافتہ شیعہ نیم فوجی گروپ ’حشد الشعبی‘ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسلح گروہوں کو ختم کرنے کے اپنے مطالبات کا اعادہ کیا۔ اس مسلح گروپ کو عراقی فوج میں ضم کیا جا چکا ہے۔

مقتدی الصدر کا کہنا تھا کہ اس گروپ کو’’دوبارہ منظم کیا جانا چاہیے اور غیر نظم و ضبط والے عناصر کو اس سے نکال دیا جانا چاہیے۔‘‘ انہوں نے ’غیر ملکی مداخلت‘ پر بھی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس پر نکتہ چینی کی تاہم کسی مخصوص ملک کا نام نہیں لیا۔

الجیاشی نے عالم دین کے خطبے کو پڑھ کر سناتے ہوئے کہا، ’’ہم ایک مشکل ۔۔۔۔۔ حکومت کی تشکیل کے دو راہے پر ہیں، کچھ ایسے لوگوں کو چیزیں سونپی گئی ہیں، جن پر ہمیں اعتماد نہیں ہیں۔‘‘

مبصرین طاقت کے اس مظاہرے کو حکومتی مذاکرات کو آگے بڑھانے کی کوشش کے طور پر دیکھ رہے ہیں تاکہ پارلیمان کے باہر کی بھی وہ اپنی سیاسی قوت کو برقرار رکھ سکیں۔ یہ مقتدی الصدر کے شیعہ حریفوں کے لیے بھی ایک تنبیہ ہے۔

عراق کا سیاسی تعطل

تیل کی دولت سے مالا مال عراق میں گزشتہ اکتوبر میں عام انتخابات ہوئے تھے اور حکومت سازی میں ناکامی کی وجہ سے، اب تک ملک بغیر ایک باقاعدہ منتخب حکومت کے ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران حکومت کے خلاف ہونے والے بڑے پیمانے کے مظاہروں کے بعد گزشتہ انتخاب میں رائے دہندگان اس قدر بے زار تھے کہ ووٹ بھی بہت کم پڑے۔

مقتدی الصدر کے قانون سازوں کے پارلیمنٹ سے مستعفی ہونے کے بعد، اب ایرانی حمایت یافتہ جماعتوں پر منحصر ہے کہ وہ سنی اور کرد جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک نئی حکومت بنانے کی کوشش کریں، تاہم یہ قطعی واضح نہیں ہے کہ آگے کیا ہو گا۔

سن 2003 میں امریکی حملے کے بعد سابق صدر صدام حسین کی حکومت کا تختہ پلٹنے کے بعد سے عراقی سیاست پر ایرانی حمایت یافتہ جماعتوں کا غلبہ رہا ہے۔ لیکن ملک کے بہت سے لوگ انہیں جماعتوں کو بہت سے عراق کے دیرینہ مسائل کی جڑ بھی مانتے ہیں۔

تشدد کے امکانات کے ساتھ ہی بڑے پیمانے کے مظاہرے مقتدی الصدر کے سیاسی حربے رہے ہیں۔ سن 2016 میں بھی ان کے حامیوں نے بغداد کے اس گرین زون میں ریلی کا اہتمام کیا تھا، جو سکیورٹی کے لحاظ سے بہت اہم ہونے کے ساتھ ہی سرکاری عمارتوں کی آماجگاہ ہے۔

عراقی رہنما، خاص طور پر ایران سے قربت رکھنے والے لوگوں کو اب اس کا بھی خدشہ ہے کہ مقتدی الصدر مستقبل میں سیاسی رہنماؤں کو گرانے کے لیے ورکنگ کلاس کی اپنی شیعہ بیس کو استعمال کر سکتے ہیں۔ اور اب تو اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ اگر مقتدی الصدر کے حریف سابق وزیر اعظم نوری المالکی دوبارہ اقتدار میں آ جاتے ہیں، تو یہ سیاسی منظر نامہ اور بھی زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں