افغان طالبان اور مقامی شیعہ گروہ میں لڑائی، ہزاروں افراد بے گھر

کابل (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی پی اے) جب گزشتہ ماہ جب شمالی افغانستان میں طالبان اور ان سے الگ ہونے والے گروہ کے جنگجوؤں کے درمیان لڑائی شروع ہوئی تو زہرہ اور اس کے خاندان کو تشدد سے بھاگنے کے لیے پہاڑوں کی طرف فرار ہونا پڑا۔

کئی دنوں تک وہ کٹھن راستوں پر چلتے رہے یہ جانے بنا کہ جب وہ واپس اپنے صوبے سرِ پل میں واپس جائیں گے تو کیسے حالات ہوں گے۔ 35 سالہ زہرہ کا کہنا ہے، ”ہم اس لڑائی میں پھسننا نہیں چاہتے تھے، ہم وہاں ہوتے تو مارے جاتے۔‘‘

زہرہ کا خاندان ان ہزاروں خاندانوں میں شامل ہے جو طالبان اور اسی گروہ کے بامیان صوبے کے سابق انٹیلجنس چیف مہدی مجاہد کے حمایتی عسکریت پسندوں کے مابین جھڑپوں کے باعث اپنے گھروں سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے ہیں۔

کوئلے کے ذخائر لڑائی کی وجہ

نسلی تناؤ، مذہبی فرقہ واریت اور بلخ نامی ضلع میں موجود کوئلے کے ذخائر اس لڑائی کی بڑی وجہ ہیں۔ تجزیہ کار نعمت اللہ کا کہنا ہے کہ یہ سارے عوامل اس تنازعہ کو فروغ دے رہے ہیں۔

مہدی مجاہد شیعہ ہزارہ مسلم ہیں لیکن وہ سنی اکثریتی طالبان تحریک میں سن 2019 میں شامل ہوئے تھے۔ انہیں طالبان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد بامیان صوبے میں انٹیلیجنس چیف کے عہدے پر فائز کیا تھا۔

افغانستان میں ہزارہ برادری کو شدید تعصب کا سامنا ہے اور انہیں کئی سالوں سے طالبان کی جانب سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ دہشت گرد گروپ داعش بھی ہزارہ برادری کے خلاف کارروائیاں کرتا ہے۔

مجاہد کی تعیناتی کو طالبان کی جانب سے اقلیتوں کو نمائندگی دیے جانے کے طور پر دیکھا جا رہا تھا لیکن مجاہد جلد ہی طالبان سے علیحدہ ہو گئے تھے۔ کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق مجاہد کی طالبان سے علیحدگی کی وجہ کابل کی جانب سے کوئلے کے کاروبار پر زیادہ کنٹرول حاصل کرنا تھا۔

بلخاب کوئلے کی کئی کانوں کا گھر ہے اور حالیہ مہینوں میں پاکستان میں توانائی کے بحران نے یہاں کے کوئلے کی مانگ میں اضافہ کر دیا ہے۔

مقامی طالبان کمانڈر پاکستان جاتے ہوئے ٹرکوں سے اضافی پیسے وصول کرتے تھے جیسا کہ سابقہ حکومت کے عہدیدارکیا کرتے تھے لیکن جب مجاہد نے اس عمل کو روکنے کے لیے کابل کی کوششوں کی مزاحمت کی تو انھوں نے مجاہد کو برطرف کر دیا۔

ہزاروں افراد بے گھر

جون میں ہونے والی یہ لڑائی صرف چند دنوں تک جاری رہی لیکن اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس نے کم از کم 27,000 افراد کو بے گھر کیا جن میں سے تقریباً سبھی ہزارہ تھے۔

نتیجہ ایک انسانی بحران ہے جس سے نمٹنے کے لیے امدادی ادارے اب جدوجہد کر رہے ہیں۔ زہرہ نے بتایا، ”ہم خالی پیٹ اور پیاسے سوتے تھے اور صبح اٹھ کر دوبارہ چلنا شروع کر دیتے تھے۔‘‘ زہرہ کے خاندان نے بامیان کے ایک گاؤں کی مسجد میں پناہ حاصل کرنے سے پہلے تقریباً پندرہ دن کی مسافت طے کی تھی۔ اس کے مطابق، ”ہر کوئی بیمار تھا۔‘‘

بلخاب کے ایک اور رہائشی برات علی سبحانی کے خاندان نے بھی اسی مسجد میں پناہ لے رکھی ہے۔ سبحانی کے مطابق،”ہمارے پاس کچھ نہیں تھا، ہم صرف ان کپڑوں میں سفر پر روانہ ہو گئے جو ہم نے پہن رکھے تھے۔‘‘ سبحانی کا کہنا ہے کہ ان کا سات افراد پر مشتمل کنبہ چار دن تک پیدل چلا پھر ایک چرواہے نے انہیں مسجد تک پہنچایا۔ سبحانی کا کہنا ہے، ”ہمارے پاس کچھ نہیں تھا۔ ہم نے سوچا کہ شاید ہم مر جائیں گے۔‘‘

ادھر وزارت دفاع کے ترجمان عنایت اللہ خوارزمی کے مطابق بلخاب میں مجاہد اور ان کے جنگجو پہاڑوں کی طرف بھاگ گئے ہیں اور لڑائی رک گئی ہے۔

لیکن انسانی حقوق کی علمبردار تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے طالبان فورسز پر وہاں شہریوں کو پھانسی دینے کا الزام لگایا ہے جس کی کابل نے تردید کی ہے۔ ایک مقامی شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، ”لوگ خوفزدہ ہیں، جس کی وجہ سے وہ اب بھی وہ پہاڑوں میں چھپے ہوئے ہیں۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں