تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات، علما کا وفد مفتی تقی عثمانی کی قیادت میں افغانستان پہنچ گیا

پشاور (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کے نامور مذہبی دانشور اور وفاقی شرعی عدالت کے سابق جج مفتی تقی عثمانی کے قیادت میں علما پر مشتمل ایک وفد سوموار کے روز کابل کے دورے پر پہنچا ہے۔

پاکستانی علما اور دانشوروں پر مشتمل وفد کابل میں سرحد پار افغانستان میں روپوش کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے عہدیداروں سے ملاقات کرینگے ۔ وفد میں پشاور سے تعلق رکھنے والے مذہبی عالم کے ترجمان کے مطابق افغانستان میں مقیم پاکستانی طالبان کو حکومت کے ساتھ مصالحت کے لئے رکھی گئی شرائط میں لچک پیدا کرنے پر راضی کرنے کی کوشش کی جائیگی ۔

نامور مذہبی دانشور مفتی تقی عثمانی کے قیادت میں کابل جانے والے وفد میں جامعہ عثمانیہ پشاور کے مفتی غلام الرحمن، جماعت اشاعت و توحید کے سربراہ مولانا محمد طیب ، دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک نوشہرہ کے مہتمم مولانا انوار الحق، وفاق المدارس پاکستان کے مولانا حنیف جالندھری ، وفاق المدارس خیبرپختونخوا کے سربراہ مولانا حسین احمد، سابق ممبر خیبر پختونخوا اسمبلی شیخ الحدیث مولانا محمد ادریس اور مختارالدین شاہ کر کربوغہ شامل ہیں۔

مفتی تقی عثمانی نے جون کے تیسرے ھفتے بھی کابل کا دورہ کرکے پاکستانی اور افغان طالبان عہدیداروں سے بات چیت کی تھی۔

وفد میں شامل ایک مذہبی رہنما کے قریبی معتمد نے نام نہ بتانے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وفد آئندہ جمعے تک کابل میں رہیگا اور اس دوران کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے رہنماوں کے علاوہ افغانستان میں طالبان حکومت کے اہم عہدیداروں کے ساتھ بھی بات چیت کرے گا۔

افغانستان جانے والے وفد کے بارے میں نہ تو سرکاری طور پر اور نہ کالعدم ٹی ٹی پی نے کوئی بیان جاری کیا ہے۔

علماء پر مشتمل وفد طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے ایک ایسے وقت میں افغانستان کا دورہ کر رہا ہے جب قبائلی اضلاع سمیت خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں دھشت گردی اور تشدد کے واقعات میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ حکومتی اتحاد میں شامل اہم مذہبی جماعت جمیعت العلماء اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے اپیل پر اتوار کو شمالی وزیرستان کے مرکزی انتظامی شہر میران شاہ سمیت مختلف شہروں اور قصبوں میں گھات لگا کر کیے جانے والے حملوں کے خلاف مظاہرے کئے گئے ہیں۔

مولانا فضل الرحمن کے بقول ایک سال کے دوران مختلف علاقوں بالخصوص باجوڑ اور شمالی وزیرستان میں انکی جماعت سے منسلک 25 سرکردہ افراد کو گھات لگا کر قتل کر دیا گیا ھے۔ قتل کئے جانے والے افراد میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدوار بھی شامل ہیں۔

پس منظر

مذہبی اکابرین پر مشتمل وفد سے قبل قبائلی اضلاع سمیت خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی اور سماجی رھنماوں کے پچاس رکنی وفد نے جون کے اوائل میں کابل میں کالعدم تنظیم کے عہدیداروں اور افغانستان کے طالبان رھنماوں کے ساتھ بات چیت کی تھی ۔ جبکہ مئی کے وسط میں پشاور کے کور کمانڈر اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل فیض حمید کے سربراہی میں ایک اعلی سطحی وفد نے دو دنوں تک کابل میں ٹی ٹی پی کے عہدیداروں کے ساتھ مذاکرات کئے تھے ۔

مذاکرات اور جنگ بندی

کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے رھنماوں کے ساتھ مصالحت کے لئے مذاکرات کے دوسرے دور کا آغاز جنوبی وزیرستان کے محسود اور احمدزئی وزیر قبائل کے دو علیحدہ علیحدہ جرگوں کے ذریعے اپریل کے اواخر میں اس وقت ھوا تھا جب عسکریت پسندوں نے ملک بھر بالخصوص خیبر پختونخوا کے طول و عرض میں دھشت گردی کے وارداتوں میں تیزی دکھائی دی تھی۔ جرگوں کی در خواست پر طالبان نے پہلے یکم مئی سے دس مئی تک جنگ بندی کا اعلان کیا تھا اور جنرل فیض حمید کے سربراہی میں وفد کے کابل جانے سے قبل اس جنگ بندی میں دوسری بار پندرہ مئی تک اور تیسری بار اکتیس مئی تک توسیع کی تھی۔

جبکہ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلی کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف کے سربراہی میں پچاس رکنی وفد سے مذاکرات کے بعد اب اس جنگ بندی میں غیر معینہ مدت تک توسیع کی کئی ھے ۔

مستقل امن معاہدے میں رکاوٹ کیا ہے؟

سرحد پار افغانستان میں روپوش کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے راہنما جون کے اوائل میں کابل جانے والے پچاس رکنی جرگہ کے وساطت سے حکومت کے ساتھ مصالحت کے لئے اپنے مطالبات کو منظر عام پر لے آئے تھے۔

طالبان کے ذرائع نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے مذاکرات کے پہلے دور کے دوران ہونے والی بات چیت میں ان کے قیدیوں کی رہائی اور درج مقدمات کے واپسی سمیت ساٹھ فیصد مطالبات یا شرائط ماں لیے جانے کی تصدیق کی تھی جبکہ سابق قبائلی علاقوں سے فوج کی طالبان کے بقول مکمل واپسی، ان علاقوں کی سابقہ قبائلی حیثیت کی بحالی اور کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کو ایک مسلح تنظیم کے حیثیت سے تسلیم کرنا اور ان کے پسند کے علاقوں میں واپسی جیسے معاملات پر بات چیت جاری رکھنے کا بتایا تھا۔

جبکہ ذرائع کے مطابق ” ٹی ٹی پی کی اپنے تنظیمی ڈھانچے کے ساتھ مسلح واپسی ۔ فاٹا انضمام کے خاتمے، ڈرون حملوں کا مکمل خاتمہ اور مکمل فوجی انخلاء” کے بارے میں معاملات زیر بحث ہیں۔” طالبان ذرائع کے مطابق “ابھی تک زیر بحث مطالبات اور شرائط پر گفتگو کا سلسلہ جاری ھے۔”

پارلیمنٹ کا فیصلہ

کالعدم تنظیم کے ساتھ مستقل مصالحت کے لئے ہونے والے مذاکرات کے سلسلے میں میں چند ھفتے قبل پارلیمان کے ایک خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان کے عسکری قیادت نے تفصیلات فراہم کرتے ھوئے یقین دہانی کرائی تھی کہ مستقل امن معاہدہ آئین اور پارلیمان کے فیصلوں کے مطابق ھوگا ۔ پارلیمان کے اس خصوصی کمیٹی کے اجلاس اور عسکری قیادت کے جانب سے کی جانے والے یقین دہانی پر طالبان کے ذرائع نے تحفظات کا اظہار کیا ھے۔

افغانستان میں پچھلے سال اگست کے وسط میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد اگر ایک طرف پاکستان بالخصوص خیبرپختونخوا میں تشدد اور دہشت گردی کے واقعات میں تیزی دیکھنے میں آئی ھے تو دوسری طرف 9/11 کے واقعے کے بعد کالعدم قرار دیے جانے والی انتہا پسند مذہبی تنظیموں سے منسلک افراد دوبارہ سرگرم ہو رہے ہیں۔ چند روز قبل خیبر پختونخوا کے شمالی ضلع دیر میں کالعدم تنظیم تحریک نفاذ شریعت محمدی سے منسلک سرکردہ افراد نے ایک مشاورتی اجلاس منعقد کرکے تنظیم کو دوبارہ فعال کرنے کا فیصلہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس تنظیم کے بانی سربراہ مولانا صوفی محمد کا انتقال 2018 میں دوران قید پشاور جیل میں ھوا تھا۔ مولانا صوفی محمد کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے سابق سربراہ ملا فضل اللہ کے سسر تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں