انجنیئر ظہیر احمد: زیارت آپریشن میں مبینہ ہلاک نوجوان زندہ ہیں

کوئٹہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) بلوچستان میں زیارت آپریشن میں ہلاک ہونے والے نو افراد میں سے جس شخص کو انجنیئر ظہیر احمد کے طور پر شناخت کیا گیا تھا وہ انجینئر ظہیر احمد نہیں تھے۔

انجنیئر ظہیر احمد زندہ ہیں اور انھوں نے کو کوئٹہ میں پیپلز پارٹی کے رہنما سردار نور احمد بنگلزئی کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش میں ایران میں گرفتار ہونے کے بعد ایرانی سکیورٹی فورسز کی حراست میں تھے۔

چند روز قبل زیارت آپریشن کے حوالے سے نو افراد کی لاشیں صبائی دارالحکومت کوئٹہ لائی گئیں تھیں۔ ان میں سے ایک لاش انجنیئر ظہیر احمد بنگلزئی کے رشتہ داروں یہ سمجھ کر لے گئے تھے کہ یہ ان کی ہے اور اسے ضلع خضدار دفنا دیا گیا تھا۔

پریس کانفرنس کے دوران سردار نور احمد بنگلزئی نے کہا کہ بعض لوگ ہماری لاشوں پر سیاست کر رہے ہیں جس کی وہ مذمت کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جس شخص کی لاش کو ظہیر احمد کی لاش سمجھ کر دفنایا گیا ان کے بال وغیرہ ڈی این اے ٹیسٹ کے لے لیے گئے ہیں۔

یورپ جانے کی ناکام کوشش

ظہیر احمد نے بتایا کہ وہ ریئل اسٹیٹ کا کاروبار کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انہیں یورپ جانے کا موقع ملا جو کہ اس کاروبار سے کہیں زیادہ بہتر تھا اس لیے انہوں نے ویزے کی درخواست دی تاکہ موقع ان کے ہاتھ سے نہ جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ یورپ میں ان کا ایک دوست تھا جنھوں نے انہیں بتایا کہ وہ کسی طرح پہنچ جائیں تو بعد میں ویزے کا انتظام ہو جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے ایران کے راستے یورپ جانے کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کے لیے نوشکی میں ایک ایجنٹ سے رابطہ کیا۔ ہو گزشتہ برس 7 اکتوبر کو نوشکی میں ایجنٹ سے ملے: ‘ نوشکی میں ایجنٹ سے ملاقات کے بعد ہم (ایران کے) سرحدی شہر تفتان پہنچے۔ گاڑی میں کچھ اور لوگ بھی تھے۔’

انھوں نے بتایا کہ رات کا وقت تھا۔ وہ گاڑی میں بیٹھ گئے اور کچھ چلنے کے بعد گائیڈ نے کہا کہ تھوڑا سا پیدل چلنا ہوگا۔

ظہیر احمد کا کہنا تھا کہ کچھ دور چلنے کے بعد ایرانی سکیورٹی فورسز نے ان لوگوں کو پکڑ لیا اور ان کے چہروں پر ماسک پہنا دیے۔’ اس کے بعد ساڑھے نو مہینے ہوگئے یا دس مہینے ہوگئے میں ادھر بند تھا۔ کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کیا ہورہا ہے۔’

ظہیر احمد کا کہنا تھا کہ انھیں خوف تھا کہ انھیں مار دیا جائے گا۔ لیکن پھر انھیں رہا کر کے تفتان بارڈر پر چھوڑ دیا گیا۔

وہاں سے وہ کسی طرح نوشکی پہنچ گئے اور پھر شیخ واصل سے انھوں نے اپنے کزن کو فون کیا۔ ‘دو تین گھنٹے کے بعد میرا کزن پہنچا تو مجھے دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اس نے بتایا کہ ہم نے تو آپ کی فاتحہ بھی پڑھ لی ہے۔ مجھے گلے لگایا اور رویا۔’

‘پھر سے زندہ ہو جانے’ کا اعلان

ظہیر احمد کا کہنا تھا کہ ان کے سامنے یہ سوال کھڑا ہو گیا تھا کہ وہ اپنے زندہ ہونے کے بارے میں سب کو کیسے بتائیں۔ ‘میں نے کزن سے کہا کہ اب کیا کریں میں تو مرچکا ہوں۔ میرے کزن نے کہا کہ سردار نور احمد بنگلزئی سے مشورہ کرتے ہیں جو ہمارے عزیر بھی ہیں اور قبائلی اورقومی لیڈر بھی ہیں۔’

ان کا کہناتھا سردار صاحب اور دوسرے لوگوں نے انھیں پریس کانفرنس کرنے کا کہا تاکہ جو کچھ متنازعہ باتیں ہیں ان کی وضاحت ہوجائے۔

ظہیر احمد بلوچ نے کہا کہ وہ تعلیم یافتہ نوجوان ہیں اور ایک کاروباری شخص ہیں۔ ان کا کسی بھی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں اور نہ وہ کسی ادارے کے خلاف ہیں اور نہ کسی ادارے کے خلاف کام کیا۔

انھوں نے کہا کہ ان کی ہلاکت کی جھوٹی خبر کے بعد اگر ان کے اہل خانہ کے کسی جملے سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو وہ اس پر معذرت خواہ ہیں۔

لاش کی شناخت

پریس کانفرنس کے موقع انجنیئر ظہیرکے بڑے بھائی خورشید احمد بھی موجود تھے۔

انھوں نے کہا کہ 7 ‘اکتوبر کے بعد سے انجنیئر ظہیر منظر عام پر نہیں تھے تو ہم پریشان ہو گئے اور دو تین بعد تھانہ زرغون آباد کوئٹہ میں ہم نے ان کی گمشدگی کی ایف آئی آر درج کرائی۔

انہوں نے کہا کہ اس کے بعد انھوں نے مختلف اداروں سے رابطے کیے اور قانونی چارہ جوئی کی۔

ظہیر احمد کے بڑے بھائی کا کہنا تھا کہ ’18جولائی کی شام کو سوشل میڈیا پر تصاویر آئیں اور بتایا گیا کہ آپ لوگوں کے بھائی کی لاش آئی ہے۔ سول ہسپتال کوئٹہ سے فون آیا کہ آپ لوگ لاش لے جائیں۔ پھر ہم ہسپتال آئے تو لاش کو دیکھا توظہیر اور اس لاش میں یکسانیت تھی، جیسے بھنوﺅں کا کٹ اور ناک کا نشان ایک جیسے تھے۔اس یکسانیت کی وجہ سے ہم نے اس شخص کی لاش کو ظہیر کےطور پر شناخت کیا۔’

انہوں نے کہا کہ وہاں کچھ ماہر لوگ بھی تھے جنھوں نے بتایا کہ ‘یہ بندہ (لاش) آپ لوگوں کا ہے۔’

خورشید احمد کا کہنا تھا کہ مذکورہ لاش کی تدفین کر دینے کے سات آٹھ روز بعد ان کے کزن نے ان سے نور احمد بنگلزئی کے گھر آنے کو کہا۔

ان کا کہنا تھا: ‘جب ہم سردار نوراحمد کے مہمان خانے پہنچے تو دیکھا ظہیر بیٹھا ہوا ہے۔ ان کا وہاں موجود ہونا ہمارے لیے ایک معجزہ ثابت ہوا۔’

پیس منظر

پریس کانفرس کے دوران سردار نور احمد بنگلزئی نے کہا کہ عید الاضحی کے بعد زیارت میں آپریشن کیا گیا تھا۔ کیونکہ اس سے قبل لیفٹیننٹ کرنل لئیق اور ان کے کزن کو ان کے خاندان کے سامنے سے اغوا کیا گیا اور اس کے بعد ان کی مسخ شدہ لاشیں ملی تھیں۔

ان کا کہنا تھا چند دن بعد دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن کیا گیا جس میں بہت سے دہشت گرد گئے تھے۔ ‘جس کے بعد بعض لوگوں نے تصویریں اٹھاکر احتجاج شروع کیا اور ریڈ زون میں آکر یہ تماشا کیا کہ لاپتہ افراد کو مارا گیا ہے۔’

نور احمد بنگلزئی کا کہنا تھا کہ ‘جن لوگوں نے لاپتہ افراد کے نام پر جو ڈرامہ رچایا ظہیر احمد کی موجودگی ان کے لیے شرمندگی کا باعث بنی جبکہ ہمارے لیے ایک معجزہ ثابت ہوا۔’

قبائلی رہنمانے کہا کہ ظہیر احمد کاخاندان ایک سانحے سے گزرا کیونکہ ان کو ایک لاش حوالے کی گئی۔

انھوں نے زیارت کے واقعے کے بارے میں جوڈیشنل کمیشن کے قیام کو سراہا اور ساتھ ہی مطالبہ کیا کہ پورے واقعے کی مکمل تحقیقات کی جائیں۔ ‘جن لوگوں کو اغوا کیا گیا وہ شریف لوگ تھے۔ کر نل لئیق ایک فوجی آفیسر تھے۔ یہ تحقیق ہو کہ ان کو کیوں مارا گیا۔ اسی طرح پہلے یہ بھی تحقیق ہو کہ زیارت میں مارے جانے والے کون تھے۔ جس طرح یہ بتایا گیا ظہیر احمد کو بھی مارا گیا لیکن وہ تو ہمارے پاس بیٹھا ہے۔’

ان کا کہنا تھا کہ بعض لوگ اب بھی ظہیر احمد کی تصویر لے کر ریڈ زون میں احتجاج کر رہے ہیں۔ وہ ان سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ ان لوگوں نے یہ تصویر کس کی اجازت سے اٹھا رکھی ہے۔

سردار بنگلزئی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے دشمنوں کی نظریں بلوچستان اور اس کے وسائل پر ہیں۔ انھوں نے الزام لگایا کہ ‘جو لوگ لاپتہ افراد کے نام پر مہم چلارہے ہیں ان کو باہر سے پیسے مل رہے ہیں۔ ہمارے لوگوں کو اس بات کو سمجھنا چائیے۔’

ان کا کہنا تھا کہ وہ ظہیر احمد کو خود عدالت اور دیگر فورمز پر پیش کریں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں