ایمن الظواہری کی ہلاکت: کیا دھماکہ خیز مواد کی جگہ بلیڈز والا میزائل استعمال ہوا؟

واشنگٹن (ڈیلی اردو/بی بی سی) 31 جولائی 2022 کو علی الصبح القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری نماز فجر کی ادائیگی کے بعد حسبِ معمول کابل میں واقع ایک مکان کی بالکونی میں نمودار ہوئے۔

مگر یہ اُن کی زندگی کی آخری حرکت ثابت ہوئی۔

افغانستان کے مقامی وقت کے مطابق صبح چھ بج کر 18 منٹ پر دو میزائل اس بالکونی سے ٹکرائے اور 71 سال کے ایمن الظواہری کی زندگی کا باب بند ہو گیا۔

اس میزائل حملے میں القاعدہ کے سربراہ تو جان سے گئے لیکن اسی مکان میں موجود اُن کی بیٹی اور اہلیہ محفوظ رہیں کیونکہ حملے سے ہونے والا نقصان بالکونی کے مرکزی حصے تک ہی محدود رہا۔

اس حملے کے بعد یہ سوال پیدا ہوا کہ کسی ہدف کو ہزاروں فٹ کی دوری سے اتنی کامیابی سے نشانہ بنانا کیسے ممکن ہے جس میں صرف ٹارگٹ کو ہی ہٹ کیا جائے کیونکہ ماضی میں اس نوعیت کے امریکی ڈرون حملوں میں ہدف کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر شہری ہلاکتوں کے الزامات لگتے رہے ہیں۔

لیکن اس حملے میں الظواہری کی عادات کے گہرے مطالعے کے علاوہ میزائل کے انتخاب نے بھی اہم کردار ادا کیا۔

لیزر سے ہدف کا تعین

اس حملے کے لیے فضا سے زمین پر ہدف کو نشانہ بنانے والے جس قسم کے میزائل کا انتخاب کیا گیا وہ کلیدی چیز تھی۔ امریکی حکام کے مطابق یہ ڈرون سے داغے جانے والے ہیل فائر میزائل تھے جو نائن الیون حملوں کے بعد سے امریکہ کی انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کا اہم حصہ رہے ہیں۔

اس میزائل کو مختلف پلیٹ فارمز سے داغا جا سکتا ہے جن میں ہیلی کاپٹر، بحری جہاز، جنگی طیارے یا پھر ڈرون شامل ہیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ امریکہ نے 2020 میں بغداد میں ایرانی جرنیل قاسم سلیمانی اور سنہ 2015 میں شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے شدت پسند ’جہادی جان‘ کو ہلاک کرنے کے لیے بھی اسی میزائل کا استعمال کیا تھا۔

اس قسم کی کارروائیوں میں ہیل فائر کے استعمال کی بنیادی وجہ اس میزائل کی ہدف کو ٹھیک نشانہ بنانے کی صلاحیت ہے۔

جب ڈرون سے میزائل داغا جاتا ہے تو اسے کنٹرول کرنے والا آپریٹر ہدف کی لائیو سٹریم ویڈیو دیکھ رہا ہوتا ہے جو ڈرون پر نصب کیمرے سیٹلائٹ کے ذریعے اسے بھیجتے ہیں۔

سکرین پر موجود ’ٹارگٹنگ بریکٹس‘ کی مدد سے آپریٹر ہدف کو ’لاک‘ کرنے میں کامیاب ہوتا ہے اور اس جانب ایک لیزر پوائنٹ کرتا ہے۔ جب میزائل داغا جاتا ہے تو وہ ہدف تک پہنچنے کے لیے اسی لیزر کے راستے پر سفر کرتا ہے۔

امریکی فوج میں ڈرون کی مدد سے ہدف کو نشانہ بنانے کے سلسلے میں ایک باقاعدہ طریقۂ کار موجود ہے تاکہ شہری ہلاکتوں کے امکان کو کم سے کم کیا جا سکے۔ ماضی میں امریکی فوج اور سی آئی اے کے ڈرون حملوں سے قبل فوج کے وکلا سے بھی مشاورت کی مثالیں موجود ہیں۔

اس قسم کی ٹارگٹ کلنگ کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے ماہر پروفیسر ولیم بینکس کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں حکام کو ہدف کی اہمیت اور شہری ہلاکتوں کے امکان کے توازن کو مدِنظر رکھنا پڑتا تھا۔

ان کے مطابق جس حملے میں الظواہری کو ہلاک کیا گیا وہ اس عمل کی ’بہترین مثال‘ ہے۔

’ایسا لگتا ہے کہ وہ بہت محتاط تھے اور انھوں نے اس واقعے میں جان بوجھ کر ایسے وقت اور مقام کا انتخاب کیا جہاں صرف اسے (الظواہری کو) ہی نشانہ بنایا جا سکے اور کسی اور فرد کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔‘

ایمن الظواہری کو ہلاک کرنے کے لیے جو میزائل داغا گیا اس کے بارے میں اطلاعات یہ ہیں کہ وہ ہیل فائر کی آر نائن ایکس قسم تھی جو عموماً استعمال نہیں کی جاتی۔ یہ میزائل چھ تیز دھار بلیڈ پھینکتا ہے جو ہدف کو کاٹ ڈالتے ہیں۔

سنہ 2017 میں القاعدہ کے ایک اور رہنما اور الظواہری کے نائبین میں شامل ابوخیر المصری کو بھی شام میں اسی قسم کے میزائل سے نشانہ بنایا گیا تھا۔

حملے کے بعد ان کی گاڑی کی جو تصاویر سامنے آئی تھیں ان میں دیکھا جا سکتا تھا کہ گاڑی کی چھت میں سوراخ کرنے کے بعد اس میزائل نے اس میں سوار افراد کو کاٹ ڈالا تھا لیکن نہ تو گاڑی کو اس کے علاوہ کوئی نقصان پہنچا تھا اور نہ ہی کسی قسم کے دھماکہ خیز مواد کے آثار موجود تھے۔

الظواہری کی بالکونی میں جانے کی عادت جو مہنگی ثابت ہوئی

امریکی الظواہری تک کیسے پہنچے اور انھیں نشانہ بنانے میں کیسے کامیاب ہوئے، اس بارے میں تفصیلات ابھی سامنے آ رہی ہیں۔

حملے کے بعد امریکی حکام نے بتایا کہ ان کے پاس اس مکان میں الظواہری کے معمولاتِ زندگی بشمول ان کی بالکونی میں آنے کی عادت کو سمجھنے کے لیے کافی معلومات تھیں۔

اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی جاسوس کئی ہفتوں یا ممکنہ طور پر مہینوں سے اس مکان کی نگرانی کر رہے تھے۔

سی آئی اے کے ایک سابق افسر مارک پولیمیروپولس نے بی بی سی کو بتایا کہ غالب امکان یہی ہے کہ اس حملے سے قبل معلومات کے حصول کے لیے متعدد طریقے استعمال کیے گئے ہوں گے، جن میں علاقے میں جاسوسوں کی موجودگی کے علاوہ سگنل انٹیلیجنس بھی شامل ہے۔

اس کے علاوہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ امریکی ڈرونز بھی انتہائی بلندی سے اس مقام کی نگرانی کرتے رہے ہیں۔

مارک پولیمیروپولس کا کہنا ہے کہ ’آپ کو قطعیت سے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ یہ وہی شخص ہے اور آپ کو حملہ بھی ایسے حالات میں کرنا ہے کہ جب کوئی دیگر شہری ہلاکت نہ ہو۔ یہ بہت صبر آزما کام ہے۔‘

ان کے مطابق الظواہری کو کامیابی سے نشانہ بنانے میں امریکی انٹیلیجنس کا دہائیوں کا تجربہ کام آیا تاہم اس قسم کے امریکی آپریشن ہمیشہ طے شدہ منصوبے کے مطابق نہیں رہتے۔

29 اگست 2021 کو کابل ایئرپورٹ کے شمال میں ایک ڈرون حملے میں 10 عام شہری مارے گئے تھے جبکہ اس کا ہدف شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے مقامی شدت پسند تھے۔

بعدِ ازاں امریکی محکمۂ دفاع نے اس سلسلے میں اپنی غلطی بھی تسلیم کی تھی۔

فاؤنڈیشن فار ڈیفینس آف ڈیموکریسیز کے سینیئر فیلو اور گذشتہ کئی برس سے امریکی ڈرون حملوں کے اعداد و شمار اکٹھے کرنے والے بِل روگیو کہتے ہیں کہ الظواہری پر ہونے والا حملہ ممکنہ طور پر گذشتہ پچھلے کئی حملوں سے ’کہیں زیادہ مشکل‘ تھا کیونکہ اس علاقے میں آس پاس کہیں امریکی حکومت اور اس کے اثاثوں کی موجودگی نہیں تھی۔

ماضی میں پاکستان میں ڈرون حملوں کے لیے افغانستان سے پروازیں بھری جاتیں جبکہ شام میں کیے جانے والے حملوں کے لیے عراق میں اڈے استعمال کیے جاتے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ان جگہوں پر امریکہ کے لیے پہنچنا آسان تھا کیونکہ اس کے پاس زمینی سہولیات تھیں۔ یہ کہیں زیادہ مشکل تھا۔ یہ امریکہ کے افغانستان چھوڑنے کے بعد القاعدہ یا شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے خلاف پہلا ڈرون حملہ تھا۔ یہ کوئی معمول کا واقعہ نہیں۔‘

کیا یہ دوبارہ بھی ہو سکتا ہے؟

بِل روگیو نے کہا کہ اگر افغانستان میں القاعدہ کے دیگر اہداف کے خلاف ایسے ہی حملے ہوں گے تو وہ ’حیران نہیں‘ ہوں گے۔

اُنھوں نے کہا کہ ’اہداف کی تو کوئی کمی نہیں۔ (القاعدہ کے) ممکنہ نئے رہنما ممکنہ طور پر افغانستان جا رہے ہوں گے اگر وہ اب تک وہاں نہیں پہنچے ہیں تو۔‘

’سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ کے پاس اب بھی یہ سب باآسانی کرنے کی صلاحیت ہے یا پھر یہ ایک مشکل مرحلہ ہو گا؟‘

اپنا تبصرہ بھیجیں