طالبان نے پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین کے استعمال کو بغاوت قرار دے دیا

کابل (ڈیلی اردو/وی او اے) ایک ایسے وقت میں جب افغانستان میں قابض طالبان کی جانب سے دنیا کو دی جانے والی انسداد دہشت گردی کی یقین دہانیوں پر شکوک و شبہات میں اضافہ ہو رہا ہے، طالبان کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان یا دیگر ملکوں کے خلاف افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے والے کسی بھی شخص کو گرفتار کر کےبغاوت کے الزام میں “مقدمہ”چلائیں گے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے وائس آف امریکہ کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں یہ انتباہ جاری کیاہے۔

سرحد پار دہشت گرد حملوں میں حالیہ اضافے میں درجنوں پاکستانی سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔

پاکستانی فوج کے ایک بیان کے مطابق، تازہ ترین حملہ جمعہ کو اس وقت ہوا جب “افغانستان کے اندر سے دہشت گردوں” نے پاکستانی فوجیوں پر فائرنگ کی، جس میں ایک فوجی ہلاک ہوگیا۔

اسلام آباد میں عہدہ دار باور کرتے ہیں کہ ایک سال قبل کابل میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے، طالبان نے اپنی پاکستانی شاخ، کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی سرگرمیوں پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ ٹی ٹی پی کو پاکستانی طالبان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

طالبان اس الزام کو مسترد کرتے ہیں اور انہوں نے حالیہ مہینوں میں پاکستان اور ٹی ٹی پی کے مذاکرات کاروں کے درمیان کسی امن معاہدہ کی کوشش کیلئےبات چیت کی میزبانی کی ہے۔ لیکن اس کوشش سے افغانستان سے پیدا ہونے والی دہشت گردی کا خطرہ کم نہیں ہواہے اور امن کا عمل بظاہر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔

ذبیح اللہ مجاہد سے اس ماہ کے شروع میں ان کےکابل کے دفتر میں وائس آف امریکہ نےان الزامات کے بارے میں سوال پوچھا کہ ٹی ٹی پی کے باغیوں کو طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے زیادہ آپریشنل آزادی اور نقل و حرکت کی اجازت حاصل ہے توافغان ترجمان نے کہا، ’’جو کوئی بھی یہاں موجود ہے، انہیں ایسی کسی بھی سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہے، کیونکہ انہوں نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک کیلئے خطرہ نہیں بنیں گے۔‘‘

ترجمان کا استدلال تھا کہ امریکہ اور اتحادی افواج کے انخلاء کے بعد طالبان کی واپسی نے دو دہائیوں سے جاری جنگ کا خاتمہ اور افغانستان کے بیشتر حصے میں امن قائم کر دیا ہے۔تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ سرحدی حفاظت طالبان فورسز کے لیےبدستور ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا، “افغانستان اور پاکستان کے درمیان پہاڑوں اور دشوار گزار علاقوں سے گزرنے والی ایک طویل (باؤنڈری) لائن ہے ۔ یہاں تک کہ ایسے حصے بھی ہیں جہاں ہماری افواج نے ابھی تک قدم نہیں جمائے ہیں اور نہ ہی انہیں محفوظ بنانے کے لیے فضائی مدد کی ضرورت پڑی ہے۔”

مجاہد نےکہاکہ “اس کا کافی امکان ہے کہ کچھ لوگ اس صورتحال کا فائدہ اٹھا رہے ہوں۔ اور اگر ایسا ہے تو، یہ لوگ سب سےپہلے افغانستان کے خلاف بغاوت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ انہیں ڈھونڈ کرگرفتارکرنا اور سزا دینی چاہیے۔”

انہوں نے کہا کہ “ہم اس معاملے کے بارے میں سنجیدگی سے پرعزم ہیں اور پاکستان کو یقین دلاتے ہیں کہ ہماری سرزمین ان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ ان (پاکستان) کو بھی یہ یقینی بنانا چاہیے کہ ان کی سرزمین ہمیں نقصان پہنچانے کے لیے استعمال نہ کی جائے”۔

دونوں ممالک کے درمیان 2600 کلومیٹر سے زیادہ طویل سرحد ہے۔ کابل، پاکستان اور افغانستان کے درمیان حد بندی کرنے والی 19 ویں صدی کے برطانوی نوآبادیاتی حکمرانوں کی تشکیل کردہ ڈیورنڈ لائن سے اختلاف کرتا ہے۔

اسلام آباد اس اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے کہتا ہےکہ اسے 1947 میں برطانیہ سے آزادی ملنے کے بعد بین الاقوامی سرحد ورثے میں ملی تھی۔ تاہم پاکستانی حکام انسداد دہشت گردی میں تعاون پر مایوسی کے باوجود تعلقات کو “مثبت اور فروغ پزیر” قرار دیتے ہیں۔

پاکستان نےتوجہ دلائی ہے کہ طالبان دو دہائیوں کے بعد حال ہی میں اقتدار میں واپس آئے ہیں اور انہیں ساتھ مالیاتی چیلنجوں کا بھی سامنا ہے، پاکستان کا کہنا ہے کہ انہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغانوں خصوصاً خواتین کے انسانی حقوق سے متعلق مسائل سے نمٹنے کے لیے وقت اور سیاسی جگہ کی ضرورت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں