کراچی: سانحہ صفورا میں مرکزی ملزم سعد عزیز ایک اور مقدمے سے بری

کراچی (ڈیلی اردو) سندھ ہائیکورٹ سانحہ صفورہ کے مرکزی ملزم سعد عزیز کی سزا کے خلاف اپیل منظورکرتے ہوئے اسے ایک اور مقدمے سے بری دیا۔

پولیس اورپراسیکیوشن مرکزی ملزم کے خلاف شواہد پیش کرنے میں ناکام رہے، جس پر 2 رکنی بنچ نے ہائی پروفائل ملزم سعد عزیز کی سزا کے خلاف اپیل منظور کرلی۔

عدالت نے سعد عزیز کو محافظ فورس کے اہلکار وقار ہاشمی کے قتل کے مقدمے میں دی گئی سزا کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ سعد عزیز پر اگر جُرم کا کوئی الزام نہیں ہے، تو جیل سے رہا کیا جائے۔

ملزم سعد عزیز اور دیگر ساتھیوں پر نیو کراچی پاور ہاوس کے قریب پولیس اہلکار کو قتل کرنے کا الزام تھا، پولیس نے 2014 میں تھانہ نیو کراچی میں ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔

مقدمے میں عمر جواد، علی رحمان، حیدر رف حسیب بھی نامزد تھے، انسداد دہشت گردی عدالت نے سعد عزیز پر جرم ثابت ہونے پر عمر قید اور 50 ہزار جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

یاد رہے لپ آج سے 7 برس قبل 13 مئی 2015 کو کراچی کے علاقے صفورہ گوٹھ میں شدت پسندوں نے ایک بس کو گولیوں کا نشانہ بنایا تھا جس میں اسماعیلی برادری کے افراد سوار تھے۔ حملے میں 40 سے زائد افراد مارے گئے تھے۔

خیال رہے کہ ملزم سعد عزیز اور دیگر ساتھیوں پر 3 جون 2015 کو نیو کراچی پاور ہاؤس کے قریب پولیس اہلکار کو قتل کرنے کا الزام تھا۔

ریپڈ رسپانس فورس میں تعینات کانسٹیبل وقار ہاشمی کو نیو کراچی کے سیکٹر کے 11 میں پاور ہاؤس چورنگی پر اس وقت حملہ کر کے قتل کیا گیا جب وہ ڈیوٹی سے گھر واپس جارہے تھے، بعد ازاں ماتحت عدالت نے ملزم سعد عزیز کو عمر قید اور 50 ہزار جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

قبل ازیں رواں سال اگست میں سندھ ہائی کورٹ نے سعد عزیز اور طاہر حسین منہاس عرف سائیں کو دسمبر 2020 میں کارساز کے قریب ستمبر 2013 میں مسلح حملے میں پاک بحریہ کے کیپٹن ندیم احمد کو قتل کرنے اور ان کی غیر ملکی اہلیہ کو زخمی کرنے کے جرم میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے سنائی گئی عمر قید کی سزا کو بھی کالعدم قرار دے دیا تھا۔

واضح رہے کہ سعد عزیز انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کا طالبعلم تھا جسے اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ جنوری 2016 میں فوجی حکام کے حوالے کیا گیا تھا تاکہ ملزمان کے خلاف صفورا گوٹھ بس حملہ کیس، سبین محمود قتل کیس، پولیس اہلکاروں کے قتل سے متعلق کیس، اقدام قتل اور بارودی مواد اور غیر قانونی اسلحہ رکھنے سے متعلق 18 مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے جاسکیں۔

ان ملزمان کے بارے میں کہا گیا تھا کہ یہ داعش کے مقامی کارندے ہیں۔

سعد عزیز نے اعتراف کیا تھا کہ اس نے اور دیگر ملزمان نے کراچی کے علاقے ڈیفنس میں سبین محمود کو قتل کیا کیونکہ وہ لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کے خلاف ‘غلیظ زبان’ استعمال کرتی تھیں۔

دونوں اپیل کنندگان کو ان کے 3 ساتھیوں کے ساتھ ملٹری کورٹ نے 2016 میں صفورا گوٹھ بس سانحہ، سبین محمود کے قتل اور دیگر مقدمات میں سزائے موت سنائی تھی، انسداد دہشت گردی عدالت نے انہیں کچھ دیگر مقدمات میں بھی سزا سنائی تھی۔

واضح رہے کہ مئی 2015 میں کراچی کے علاقے صفورا گوٹھ کے قریب بس پر ہونے والی فائرنگ سے 18 خواتین سمیت 47 افراد ہلاک ہوگئے تھے جن کا تعلق اسماعیلی برادری سے تھا۔

اس کے علاوہ سوشل فورم ٹی ٹو ایف کی بانی اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن سبین محمود کو اپریل 2015 میں بلوچستان کے حوالے سے منعقدہ ایک سمینار میں شرکت کے بعد ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) میں فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا تھا۔

فوجی عدالتوں نے مذکورہ مقدمات میں سعد عزیز، طاہر منہاج، اسد الرحمٰن، محمد اظہر اور حافظ ناصر احمد کو سزائے موت سنائی تھی، بعد ازاں مجرموں کو جیل حکام کے حوالے کردیا گیا تاکہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں زیر سماعت دیگر مقدمات مکمل ہو سکیں۔

مجرموں نے ٹرائل کورٹ کے سزا کے حکم کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں اپیلیں دائر کی تھیں، سندھ ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ہائی پروفائل ملزم سعد عزیز کی سزا کے خلاف اپیل منظور کی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں