ایران میں مظاہروں کے دوران مزید دو سکیورٹی اہلکار ہلاک، تعداد 14 ہوگئی

تہران (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے ایف پی/اے پی) ایران میں مھسا امینی کی موت کے بعد شروع ہونے والے ملک گیر احتجاجی مظاہرے اب چوتھے ہفتے میں داخل ہو گئے ہیں۔ مزید دو اہلکاروں کی موت کے ساتھ ان مظاہروں میں مارے گئے سکیورٹی اہلکاروں کی تعداد اب کم از کم چودہ ہو گئی ہے۔

تہران سے اتوار نو اکتوبر کی صبح ملنے والی رپورٹوں میں نیوز ایجنسی اے ایف پی نے سرکاری میڈیا کے حوالے سے بتایا کہ ملک کے مختلف حصوں میں جاری پرتشدد عوامی احتجاجی مظاہروں کے دوران گزشتہ رات ایرانی سکیورٹی فورسز کے مزید دو اہلکار مارے گئے۔

یوں سرکاری ذرائع کے مطابق بھی ان مظاہروں کے دوران اب تک مارے جانے والے ایرانی سکیورٹی اہلکاروں کی تعداد کم از کم بھی 14 ہو گئی ہے۔ ایرانی نیوز ایجنسی فارس  نے 27 ستمبر کے روز بتایا تھا کہ تب تک ان مظاہروں کے دوران ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 60 ہو چکی تھی۔ اس کے بعد سے ایرانی حکام نے ایسی ہلاکتوں کی کوئی نئی تعداد نہیں بتائی۔

اس کے برعکس مغربی دنیا کے ذرائع ابلاغ کا ایران میں موجود ذرائع یا بیرون ملک مقیم جلاوطن ایرانی باشندوں کی تنظیموں کا حوالہ دیتے ہوئے کہنا ہے کہ چوتھے ہفتے میں داخل ہو چکے ان مظاہروں میں اب تک تقریباﹰ 200 تک افراد مارے جا چکے ہیں۔

بسیج ملیشیا کیا ہے؟

ایران میں ان مظاہروں کے دوران ملک کے مخلتف حصوں میں گلیوں اور سڑکوں پر پرتشدد واقعات میں اب تک درجنوں افراد مارے جا چکے ہیں۔ ان میں عام مظاہرین بھی شامل تھے اور ملکی سکیورٹی اداروں کے ارکان بھی۔

سرکاری خبر رساں ادارے اِرنا نے اتوار کے روز بتایا کہ گزشتہ شب جو مزید دو سکیورٹی اہلکار ان مظاہروں کے دوران مارے گئے، ان میں سے ایک بسیج فورس کا رکن تھا، جو ہفتے کی رات انتقال کر گیا۔

بسیج فورس ایران کی پاسداران انقلاب نامی کور سے تعلق رکھنے والی ایک نیم فوجی ملیشیا ہے۔ خود پاسداران انقلاب کا تعلق بھی ایرانی مسلح افواج سے ہے، اور اس کور کو ایران فوج کا نظریاتی بازو سمجھا جاتا ہے۔

ہفتہ آٹھ اکتوبر کے روز مارا جانے والا دوسرا سکیورٹی اہلکار پاسداران انقلاب کور کا ایک رکن تھا، جو ایرانی صوبے کردستان کے دارالحکومت سنندج میں پرتشدد مظاہروں کے دوران ہلاک ہو گیا۔ مھسا امینی کا تعلق بھی سنندج سے ہی تھا۔

سولہ ستمبر کو ماری جانے والی مھسا امینی کون تھیں؟

اسلامی جمہوریہ ایران میں گزشتہ کئی ہفتوں سے جو عوامی مظاہرے جاری ہیں، وہ اب کافی حد تک موجودہ سیاسی نظام اور حکمرانوں کے خلاف احتجاج کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔

اندرون ملک اور بیرون ملک ان مظاہروں کا سلسلہ 16 ستمبر کے روز ایک 22 سالہ کرد نژاد ایرانی خاتون مھسا امینی کی موت کے ساتھ شروع ہوا تھا۔ امینی کو ایک عوامی مقام پر بظاہر مناسب حجاب نہ پہننے کی وجہ سے ایران کی اخلاقی امور کی نگران پولیس نے تہران سے حراست میں لیا تھا اور اسی حراست کے دوران ان کی موت واقع ہو گئی تھی۔

تہران میں درجنوں مقامات پر آنسو گیس کا استعمال

مھسا امینی کی ہلاکت کے خلاف عوامی مظاہرے ملکی دارالحکومت تہران اور ایرانی کردستان کے صوبائی دارالحکومت سنندج کے علاوہ بہت سے دوسرے شہروں میں بھی جاری ہیں۔

ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی اِرنا نے بتایا کہ صرف تہران ہی میں کل ہفتے کے روز سکیورٹی فورسز کو ایک درجن سے زائد مقامات پر مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس استعمال کرنا پڑی۔

یہ مظاہرین حکومت اور موجودہ سیاسی نظام کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے اور انہوں نے ایک پولیس بوتھ سمیت کئی عوامی اور نجی املاک کو یا تو آگ لگا دی تھی یا انہیں نقصان پہنچایا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں