بھارتی کشمیر: استصوابِ رائے کے حامی بزرگ حریت رہنما مولانا عباس انتقال کرگئے

سرینگر (ڈیلی اردو/وی او اے) تنازع کشمیر کے حل کے لیے استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کل جماعتی حریت کانفرنس کے شریک بانی اور سابق چیئرمین مولانا محمد عباس انصاری کی وفات پر بھارت اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں فضا سوگوار ہے۔

چھیاسی سالہ مولانا محمد عباس انصاری طویل علالت کے بعد منگل کو سرینگر میں میں انتقال کرگئے۔

مولانا عباس نے نجف اشرف سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1962 میں عراق سے کشمیر واپسی پر انجمنِ اتحاد المسلمین جموں و کشمیر نامی تنظیم قائم کی تھی جس کا بنیادی مقصد شیعہ اور سنی مسلمانوں میں اتحاد کی جڑوں کو مضبوط کرنا تھا۔

وہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے سیاسی افق پر پوری طرح دسمبر 1963 میں نمودار ہوئے تھے جب سرینگر کی درگاہ حضرت بل میں موجود پیغمبرِ اسلام سے منسوب موئے مبارک کے چوری ہو جانے پر ریاست کے طول و عرض میں ایک احتجاج کا آغاز ہوا ۔

مولانا عباس کو موئے مبارک کی بازیابی کے لیے شروع کی گئی تحریک کا رابطہ کار بنایا گیا اور انہوں نے عوامی جلسوں میں اپنی شعلہ بیانی کے طفیل بہت جلد لوگوں کو اپنا گرویدہ بنالیا۔

بعد کے برسوں میں انہیں کشمیریوں کے لیے استصوابِِ رائے کا مطالبہ کرنے پر کئی بار گرفتار کیا گیا ۔ وہ محاذِ رائے شماری دور کے واحد سرکردہ لیڈر تھے جو ابھی حیات تھے۔

شیخ محمد عبد اللہ کی قیادت میں کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دلانے کے لیے چلائی گئی یہ تحریک 1953 میں شروع ہو کر اور 1975 تک فعال رہی تھی۔

شیخ عبداللہ کے بھارتی حکومت کے ساتھ معاہدے کے بڑے مخالف

شیخ عبداللہ کے 1975 میں دوبارہ اقتدار میں آنےسے پہلے مولانا عباس ان سے نئی دہلی کے کوٹلہ لین میں واقع اُس بنگلے میں ملے تھے جہاں وہ نظر بند تھے ۔

انہوں نے شیخ عبداللہ کو کشمیریوں کی حقِ خود ارادیت کے لیے چلائی جا رہی تحریک سے دست بردار نہ ہونے کا مشورہ دیا تھا جسے انہوں نے نہیں مانا اور بھارتی وزیرِِ اعظم کے ساتھ معاہدہ کرلیا جو اندرا۔عبداللہ ایکارڈ کے نام سے مشہور ہوا۔

معاہدے کے تحت شیخ عبد اللہ کو جموں و کشمیر کا وزیرِِ اعلیٰ مقرر کیا گیا۔ مولانا عباس نے اسے کشمیریوں اور ان کے حقِ خود ارادیت کے کاز سے غداری قرار دیا اور اس کی شدید مخالفت کی تھی۔

سن 1987 میں استصوابِِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری تنظیموں اور ہمخیال سیاسی جماعتوں اور گروپوں نے جب ریاستی اسمبلی انتخابات میں حکمران نیشنل کانفرنس۔کانگریس اشتراک کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلم یونائیٹڈ فرنٹ (ایم یو ایف)قائم کیا تو مولانا عباس کو اس کا کنوینر مقرر کیا گیا۔

ایم یو ایف نے الزام لگایا کہ ان انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی اور پھر ایم یو ایف کی تقریباً ساری لیڈرشب کو پابندِ سلاسل کیا گیا ۔بعض مبصرین کے مطابق یہی وہ وجہ تھی جس کے باعث بھارتی کشمیر میں مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا۔

حریت کانفرنس میں اہم کردار اور گرفتاری

سن 1989 میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں شورش کے آغاز کے چند ماہ بعد جن کشمیری سیاسی لیڈروں کو گرفتار کرکے بیرونِ ریاست کی جیلوں میں قید کیا گیا اُن میں مولانا عباس بھی شامل تھے۔

سن 1992 میں رہائی کے ایک سال بعد ان لیڈوں نے کل جماعتی حریت کانفرنس کی بنیاد ڈالی۔انجمن ِ اتحاد المسلمین جموں و کشمیر حریت کانفرنس میں ایک فعال اکائی کے طور پر کام کرنے لگی ۔

مولانا عباس کو 12جولائی 2003 کو دو سال کے لیے حریت کانفرنس کا چیئرمین منتخب کیا گیا۔ یہ عہدہ سنبھالے کے فوراً بعد انہوں نے بھارتی سیکیورٹی فورسز اور کشمیری عسکریت پسندوں کے درمیان جنگ بندی پر زور دیا تھا ۔

انہوں نے یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی سرحدی تنازع نہیں بلکہ ایک انسانی مسئلہ ہے جسے بندوق سے نہیں بلکہ پُر امن مذاکرات کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔

بھارتی حکومت کے ساتھ مذاکرات

ستمبر 1999 میں مولانا عباس سمیت حریت کانفرنس کی قیادت کو ایک بار پھر گرفتار کیا گیا ۔ اس مرتبہ انہوں نے آٹھ ماہ جیل میں گزارے۔

جنوری 2004 میں مولانا عباس کی قیادت میں حریت کانفرنس نے نئی دہلی میں وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی کی حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کا آغاز کر دیا ۔

یہ سلسلہ کئی ماہ تک جاری رہا جس کے دوران حریت کانفرنس کی لیڈرشب نے واجپائی اور نائب وزیرِ اعظم لال کشن ایڈوانی اور دوسرے حکومتی عہدیداروں کے ساتھ بات چیت کے کئی دور کیے۔

ان مذاکرات کے دوران ہی مولانا عباس اور اُن کے ساتھیوں نے کشمیر کے مسئلے کو افہام و تفہیم کے ذریعے حل کرنے کی کوششوں کو آگے بڑھانے کے لیے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ پاکستان کے اُس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے مذاکرات کے اس سلسلے کو ایک خوش آئند اقدام قرار دیا تھا۔

تاہم مئی 2004 میں نئی دہلی میں حکومت کی تبدیلی کے چند ماہ بعد مذاکرات کا یہ سلسلہ کسی مُثبت نتیجے پر پہنچے بغیر رک گیا۔

مولانا عباس مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے سعودی عرب، برطانیہ اور چند دوسرے ممالک میں بھی گئے ۔ انہوں نے دسمبر 1994 میں مراکش اور نومبر 2000 میں دوحہ (قطر) میں تنظیمِ تعاون اسلامی ( او آئی سی) کے کشمیر رابطہ گروپ کے اجلاسوں میں بھی شرکت کی۔ تاہم بہت جلد بھارتی حکومت نے ان کا پاسپورٹ ضبط کیا اور انہیں اس طرح کی مزید سرگرمیوں میں حصہ لینے سے روکا گیا۔

حالیہ عرصے میں علالت کے بعد ان کی جگہ اُن کے صاحبزادے مسرور عباس انصاری حریت کانفرنس میں انجمن اتحاد المسلمین جموں و کشمیر کی نمائندگی کرنے لگے تھے۔

مولانا عباس کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں جن میں اسیری کے دوران لکھی گئی سوانح ‘خارِ گلستان’ بھی شامل ہے جو 2018 میں شائع ہوئی تھی۔

انہیں منگل کی سہہ پہر کو سری نگر کے زڈی بل علاقےمیں واقع آبائی مقبرے بابا مزار میں سپردِ خاک کیا گیا۔ اُن کی تدفین میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے جبکہ وادی کشمیر کے کئی علاقوں میں کاروباری سرگرمیاں معطل ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں