ایران سعودی عرب پر حملہ کر سکتا ہے

واشنگٹن (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) میڈیا رپورٹوں کے مطابق پینٹاگون کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ خلیج کے خطے میں سلامتی کی صورتحال پر واشنگٹن کو گہری تشویش لاحق ہے۔ ریاض سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ایران سعودی عرب پر حملہ کر سکتا ہے۔

سعودی عرب اور امریکی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق واشنگٹن انتظامیہ کو خلیج کے خطے میں پائی جانے والی سلامتی کی صورتحال پر گہری تشویش ہے اور ریاض سے بھی ایسی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں جن سے یہ خدشات ظاہر ہو رہے ہیں کہ تہران ریاض پر حملہ کر سکتا ہے۔ تاہم سلامتی کے امور کے ماہرین اس بارے میں مختلف رائے رکھتے ہیں کہ خلیج کے خطے کی سلامتی کی صورتحال کا اندازہ کس طرح لگایا جائے۔

واشنگٹن میں قائم ہڈسن انسٹیٹیوٹ جو قدامت پسندوں کا گڑھ مانا جاتا ہے، سے تعلق رکھنے والے ماہر مائیکل ڈوراں کہتے ہیں،”میں اس بات کا امکان رد نہیں کرتا کہ ایران کی حکومت سعوردی عرب پر حملہ کرے گی۔‘‘ ڈوئچے ویلے کو انٹرویو دیتے ہوئے مائیکل ڈوران نےکہا،” اگر تہران حکومت دباؤ محسوس کرتی ہے تو وہ طاقت کا مظاہرہ کر سکتی ہے۔ اس وقت ایران کے ملاؤں کی حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہو رہے ہیں اور تہران پر غیر معمولی دباؤ ہے اور اس دباؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے میں ایران سے باہر کے تنازعات کو تہران حکومت اپنی داخلہ صورتحال پر قابو پانے کے لیے اپنے حق میں استعمال کر سکتی ہے۔ اس کے لیے وہ مظاہرین کو غیر ملکی ایجنٹس قرار دے رہی ہے۔ ان مظاہرین کو ایران اسرائیل، سعودی عرب اور امریکی ایجنٹ قرار دیا جا رہا ہے۔‘‘

ایرانی پاسداران انقلاب، انٹیلی جنس اور سکیورٹی کی وزارت نے بھی مشترکہ طور پر ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں ایران میں ہونے والے مظاہروں کو تہران کے دشمنوں ‘امریکہ، برطانیہ، اسرائیل اور سعودی عرب کی سازش کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔‘

مظاہرین کی طرف سے عوامی دھیان ہٹانے کی کوشش

تہران کی پالیسی اور طرز عمل کے لیے مشہور ہے کہ وہ اکثر کسی مسئلے کی طرف سے عوام کی توجہ کسی دوسری طرف مبذول کرانے کے لیے کوئی نا کوئی حربہ تلاش کر لیتا ہے۔ امریکہ کے سابق صدر جارج ڈبلیو بُش کی مشرق وسطیٰ سے متعلق پالیسی کے ماہر ڈوران کہتے ہیں،”جتنا زیادہ حکومت دباؤ میں آتی ہے، اتنی ہی زیادہ جارحانہ ہوتی جاتی ہے۔‘‘

عراق اور ترکی میں امریکہ کے سابق سفیر جیمز جیفری کا بھی اسی سے ملتا جلتا خیال تھا۔ وہ بھی اس بات کو رد نہیں کرتے کہ تہران حکومت سعودی عرب پر حملہ کرے گی۔ جیفری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،”اب اس کا مقصد ملاؤں کی حکومت کے خلاف ہونے والے مظاہروں سے توجہ ہٹانا ہو گا۔‘‘ پڑوسی ملک کے ساتھ تنازعے کی صورت میں تہران حکومت ممکنہ طور پراپنے پیچھے لوگوں کو بھی اکٹھا کر سکتی ہے۔ ایران اس حقیقت کا فائدہ اٹھا سکتا ہے کہ صدر بائیڈن کے سعودی عرب کے حالیہ دورے کے بعد واشنگٹن اور ریاض کے درمیان تعلقات میں کچھ تلخی پیدا ہوئی ہے۔

‘سعودی عرب پر حملہ بے معنی ہوگا‘

برطانوی تھنک ٹینک چیتھم ہاؤس سے تعلق رکھنے والی ایرانی امور کی ماہر صنم وکیل کا خلیج کی صورتحال کے بارے میں نقطہ نظر اپنے امریکی ساتھیوں سے بہت مختلف ہے۔ وہ نہیں مانتیں کہ سعودی عرب پر ایرانی حملے کے امکانات قریب ہیں۔ ایرانی ماہر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ”ہم صرف قیاس آرائیاں کر سکتے ہیں کہ ریاض اب ایران کے ممکنہ حملے سے متعلق معلومات کو عام کیوں کر رہا ہے۔‘‘

اس وکیل کا مزید کہنا تھا،”شاید سعودی عرب کی انٹیلیجنس سروسز نے کچھ ریکارڈ کیا اور ایران کو بدنام کرنے کے لیے اسے شائع کر رہے ہیں۔‘‘ تہران میں حکومت یقیناً بڑے پیمانے پر مظاہروں کی وجہ سے دباؤ میں ہے۔ لیکن ان کا اقتدار خطرے میں نہیں ہے۔ صنم وکیل کے نقطہ نظر سے اس صورت حال میں سعودی عرب پر حملہ کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ان کے بقول،”ایرانی ملکی سیاست اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے جتنا مغرب میں بہت سے لوگ سوچتے ہیں۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں