راجیو گاندھی قتل کیس کے تمام مجرم تیس سال بعد رہا

نئی دہلی (ڈیلی اردو/بی بی سی) سپریم کورٹ نے راجیو گاندھی قتل کیس میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے چھ ملزمان کو بری کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے نلنی اور آر پی روی چندرن سمیت تمام مجرموں کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔

تمام ملزمان کو عدالت کے حکم کے ایک گھنٹے بعد رہا کر دیا گیا۔

سپریم کورٹ کے جسٹس بی آر گاوائی اور جسٹس بی وی ناگارتھنا کی بنچ نے کہا کہ ان لوگوں کے معاملے میں بھی ایک ملزم اے جی پیراریولن کے معاملے میں دیا گیا فیصلہ نافذ ہوگا۔ اس سال 18 مئی کو عدالت نے آئین کے آرٹیکل 142 کے تحت دیے گئے غیر معمولی اختیارات کا حوالہ دیتے ہوئے پیراریولن کو رہا کر دیا تھا۔ پیراریوالن نے راجیو گاندھی قتل کیس میں 30 سال عمر قید کی سزا کاٹی تھی۔ جبکہ سری ہرن، روی چندرن، سنتھن، مروگن، اے جی پیراریوالن اور رابرٹ پیاس اور جے کمار کو عمر قید کی سزا سنائی گئی اور وہ 23 سال جیل میں گزار چکے ہیں۔

ان لوگوں کی رہائی کا حکم دیتے ہوئے بنچ نے کہا کہ مجرموں نے 30 سال جیل میں گزارے ہیں۔ اس دوران انہوں نے اپنا وقت پڑھائی میں صرف کیا اور ڈگریاں حاصل کیں۔ تمام ملزمان اپنی قبل از وقت رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے طویل قانونی جنگ لڑ رہے تھے۔ تمل ناڈو حکومت نے گورنر سے انہیں قبل از وقت رہا کرنے کی سفارش بھی کی تھی۔ تاہم گورنر نے اس سفارش کو ماننے سے انکار کر دیا اور فائل صدر کو بھیج دی تھی۔

باقی ملزمان نے پیراریولن کو رہا کرنے کے سپریم کورٹ کے حکم کا حوالہ دیتے ہوئے رہائی کی درخواست کی گئی تھی۔

جون کے شروع میں، نلنی اور روی چندرن نے مدراس ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی تھی جس میں تمل ناڈو حکومت کو ملزمان کو رہا کرنے کا حکم دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ کابینہ نے ستمبر 2018 میں ان کی رہائی کے لیے جو سفارش کی تھی اس پر گورنر کی منظوری کے بغیرعمل درآمد ہو جائے۔ سونیا نے قصوروار نلنی کو معاف کر دیا تھا

جب نلنی کو راجیو گاندھی کے قتل میں گرفتار کیا گیا وہ اس وقت حاملہ تھیں۔ انہیں حاملہ ہوئے دو ماہ ہو چکے تھے۔ نلنی سری ہرن کو خودکش سکواڈ کی رکن ہونے کا قصوروار پایا گیا تھا۔

نلنی کو پہلے تین دیگر مجرموں کے ساتھ موت کی سزا سنائی گئی تھی، لیکن سونیا گاندھی کی اپیل کے بعد نلنی کی سزا کو کم کر کے عمر قید کر دیا گیا تھا۔ سونیا نے کہا تھا کہ ایک معصوم بچے کو نلنی کی غلطی کی سزا کیسے دی جا سکتی ہے جو ابھی دنیا میں نہیں آیا۔ 19 افراد کو پہلے ہی بری کر دیا گیا تھا ٹرائل کورٹ نے راجیو گاندھی قتل کیس میں 26 مجرموں کو موت کی سزا سنائی تھی۔ تاہم مئی 1999 میں سپریم کورٹ نے 19 افراد کو بری کر دیا۔ باقی سات ملزمان میں سے چار (نلینی، مروگن عرف سری ہرن، سنتھن اور پیراریولن) کو موت کی سزا سنائی گئی اور باقی (روی چندرن، رابرٹ پیاس اور جے کمار) کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ چاروں کی رحم کی درخواست پر تمل ناڈو کے گورنر نے نلنی کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا تھا۔ باقی ملزمان کی رحم کی درخواست صدر نے 2011 میں مسترد کر دی تھی۔

راجیو گاندھی کا قتل

21 مئی 1991 کو راجیو گاندھی کو شدت پسند تنظیم ایل ٹی ٹی کے دھنو نامی ایک خودکش بمبار نے تمل ناڈو کے سریپرمبدور میں ایک انتخابی ریلی کے دوران قتل کر دیا تھا۔

ایل ٹی ٹی ای کی خاتون انتہا پسند دھنو نے راجیو کو پھولوں کا ہار پہنانے کے بعد انکے پاؤں چھوئے اور جھک کر کمر میں بندھے ہوئے دھماکہ خیز مواد کو اڑا دیا۔ راجیو اور حملہ آور دھنو سمیت 16 لوگوں کی موقع پر ہی موت ہو گئی تھی جب کہ 45 لوگ شدید زخمی ہوئے تھے۔

اس وقت، بمشکل دس گز کے فاصلے پر، گلف نیوز کی نامہ نگار اور اس وقت بنگلور کے دکن کرونیکل کی مقامی ایڈیٹر نینا گوپال، راجیو گاندھی کی معاون سمن دوبے سے بات کر رہی تھیں۔ نینا یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں، ’مجھے سمن سے بات کرتے دو منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ میری آنکھوں کے سامنے بم پھٹ گیا۔ میں عام طور پر سفید کپڑے نہیں پہنتی۔ میں نے اس دن جلدی میں سفید ساڑھی پہن لی تھی۔ بم پھٹتے ہی میری نظر اپنی ساڑھی پر پڑی۔ وہ بالکل کالی ہو چکی تھی اور اس پر گوشت اور خون کے ٹکڑے چپک گئے تھے۔ یہ ایک معجزہ تھا کہ میں بچ گئی۔ میرے سامنے کھڑا ہر کوئی اس دھماکے میں مارا گیا۔

نینا کہتی ہیں، ’بم کے پھٹنے سے پہلے پٹاخے کی طرح کی آواز آئی اور پھر زور دار دھماکے سے بم پھٹا۔ جب میں آگے بڑھی تو دیکھا کہ لوگوں کے کپڑوں میں آگ لگی ہوئی تھی، لوگ چیخ رہے تھے اور چاروں طرف بھگدڑ مچ گئی تھی، ہمیں نہیں معلوم تھا کہ راجیو گاندھی زندہ ہیں یا نہیں‘۔

سری پیرمبدور میں اس خوفناک دھماکے کے وقت تمل ناڈو کانگریس کے تین اعلیٰ لیڈر جی کے موپنار، جینتی نٹراجن اور راما مورتی موجود تھے۔ دھواں ختم ہوا تو راجیو گاندھی کی تلاش شروع ہو گئی۔ انکے جسم کا ایک حصہ منہ کے بل پڑا تھا۔

اس کیس کی تحقیقات کے لیے سی آر پی ایف کے آئی جی ڈاکٹر ڈی آر کارتھیکیان کی قیادت میں ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی تھی۔ چند مہینوں کے اندر اس قتل کے الزام میں ایل ٹی ٹی ای کے سات ارکان کو گرفتار کر لیا گیا۔ مرکزی ملزم شیوراسن اور اس کے ساتھیوں نے گرفتاری سے قبل سائینائیڈ کھا لی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں