ماسکو کانفرنس: ‘عالمی برادری چاہتی ہے کہ طالبان اپنے وعدے پورے کریں’

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) افغانستان میں طالبان حکومت نے ایک بار پھر اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ کسی فرد یا گروہ کو افغانستان کی سرزمین خطے کے استحکام کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

طالبان کی وزارتِ خارجہ کا یہ بیان روس کی میزبانی میں افغانستان سے متعلق ‘ماسکو فارمیٹ’ کے بدھ کو ہونے والے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے کے بعد سامنے آیا ہے۔ خیال رہے کہ طالبان حکومت کے کسی وفد کو اس کانفرنس میں مدعو نہیں کیا گیا تھا۔

اجلاس میں طالبان پر کابل میں حقیقی طور پر ایک نمائندہ حکومت قائم کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے افغانستان میں دہشت گردوں کی مبینہ موجودگی اور منشیات کی اسمگلنگ اور دیگر خطرات کو ختم کرنے پر زور دیا گیا۔

ماسکو میں ہونے والی کانفرنس میں روس، چین، پاکستان، ایران، بھارت، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے خصوصی نمائندوں اور اعلیٰ حکام نے شرکت کی جب کہ قطر، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور ترکی کے نمائندے بطور مہمان شریک ہوئے۔

عالمی برادری اور افغانستان کے ہمسایہ ممالک طالبان سے ایک ایسی نمائندہ حکومت کی تشکیل کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں جس میں تمام افغان نسلی گرہوں کی نمائندگی ہو اور جو خواتین او ردیگر محروم طبقات کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنائے۔

طالبان کو اقتدار میں آئے ایک سال سے زائد کا عرصے ہو گیا ہے اور اس دوران طالبان انتطامیہ کی طرف سے ایسے اقدامات کیے گئے جن کے تحت نہ صرف خواتین کے لیے روزگار کے مواقع محدود ہو گئے ہیں۔ بلکہ افغان معاشرے میں ان کی آزادانہ نقل و حرکت بھی مشکل ہو گئی۔ دوسری جانب نوجوان لڑکیوں کی تعلیم کا سلسلہ بھی ملک کے اکثر علاقوں میں معطل ہے۔

طالبان کا مؤقف ہے کہ ان کی عبوری حکومت میں تمام افغان نسلی اور دیگر سیاسی گروہوں کی نمائندگی ہے اور افغان خواتین کو ملک کے رسم و رواج کے مطابق تمام حقوق حاصل ہیں۔ لیکن بین الاقوامی برادری اور خطے کے دیگر ممالک طالبان کے اس مؤقف سے اتفاق نہیں کرتے۔

مبصرین کا کہنا ہے اسی وجہ سے شاید طالبان کو بدھ کو افغانستان سے متعلق ہونے والی ماسکو کانفرنس میں بطور مبصر شرکت کی دعوت نہیں دی گئی ہے۔

‘طالبان کی سخت گیر پالیسیوں کے باعث اُنہیں مدعو نہیں کیا گیا’

افغان امور کے تجزیہ کار صحافی سمیع یوسفزئی کہتے ہیں کہ طالبان اس بات سے مایوس ہوئے ہوں گے کہ افغانستان سے متعلق ماسکو فارمیٹ میں وہ ممالک شامل ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے طالبان کو اس کانفرنس میں مدعو نہیں کیا۔

اگرچہ ان کے بقول طالبان کو اس کانفرنس میں بطور مبصر شرکت کی دعوت ملنی چاہیے تھی جس طرح انہوں نے گزشتہ سال ہونے والی کانفرنس میں شرکت کی تھی۔

لیکن سمیع یوسفزئی کہتے ہیں کہ کہ شاید اس کی ایک وجہ طالبان کی سخت گیر پالیسیاں ہوں جن کے تحت وہ افغانستان میں مسلسل خواتین کی تعلیم کے حصول اور رسائی سے انکار کررہے ہیں اور افغانستان میں سیاسی جماعتوں کو بھی پنپنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔

یاد رہے کہ بین الاقوامی برادری گزشتہ ایک سال سے طالبان انتظامیہ کو باور کرانے کی کوشش کرتی آ رہی ہے کہ وہ شدت پسندوں گروہوں کے خلاف کارروائی کرے جو خطے کے دیگر ممالک کے لیے خطر ہ ہیں۔

سمیع یوسفزئی نے کہا کہ اس کانفر نس کے موقع پر روس کے افغانستان کے لیے نمائندہ خصوصی ضمیر کابلوف نے افغانستان کے شمال میں شدت پسند گروپ داعش کے مبینہ طور پر ابھرتے ہوئے خطرے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

لیکن طالبان کا کہنا ہے کہ خطے کی سیکیورٹی اور اقتصادی اور معاشی استحکام خطےکے تمام ممالک کی مشترکہ ذمے داری ہے اور اس کے لیے مشترکہ کوششیں ضروری ہیں۔

طالبان نے گزشتہ سال اگست میں کابل کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اس بات کا عندیہ دیا تھا کہ ان کی پالیسی ماضی کے مقابلے میں مختلف ہو گی۔

لیکن بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار نجم رفیق کہتے ہیں کہ خواتین کی سماجی اور پیشہ ورانہ سرگرمیوں سے متعلق طالبان حکومت کے بعض اقدمات اور لڑکیوں کو تعلیم کی اجازت نہ دینا اس بات کا مظہر ہے کہ طالبان فی ا لحال اپنی پالیسیوں میں نرمی کرنے پر تیار نہیں ہیں۔

نجم رفیق کے خیال میں ماسکو کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ طالبان کے لیے ایک پیغام ہے کہ بین الاقوامی برادری ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کرے گی جب تک طالبان ایک جامع حکومت قائم کرنے کی طرف سے پیش رفت نہیں کرتے جس میں تمام نسلی اور سیاسی گروہوں کی نمائندگی ہو۔

ماسکو کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے میں امریکہ کی طرف سے افغانستان کے منجمد کیے گئے اثاثے واگزار کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔

ماسکو کانفرنس نے امریکہ اور نیٹو ممالک پر بھی زور دیا کہ وہ افغانستان میں ہونے ولے نقصان کی تلافی کریں جن کی فورسز 20 برس تک افغانستان میں موجود رہی ہیں۔

یادر ہے کہ گزشتہ سال اگست میں طالبان کی طرف سے کابل کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد امریکہ نے افغانستان کے سات ارب سے زائد جب کہ یورپی ممالک نے دو ارب کے اثاثے منجمد کر دیے تھے۔

ان کے اجرا کو افغانستان میں تمام نسلی و لسانی گروہوں کی ایک جامع نمائندہ حکومت کے قیام اور خواتین کے حقوق کی صورتِ حال میں بہتری سے مشروط کر دیا گیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں