امریکی صدر یوکرین جنگ بند کرانے کیلئے روسی صدر سے ملاقات پر تیار

واشنگٹن (ڈیلی اردو/بی بی سی) امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ اگر روس کو یوکرین جنگ بند کرنے میں دلچسپی ہو اور وہ جنگ کو ختم کرنے کا طریقہ ڈھونڈ رہا ہو تو وہ روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ملاقات کے لیے تیار ہیں۔

وائٹ ہاؤس میں فرانسیسی صدر ایمینوئل میکخواں سے ملاقات کے بعد صدر جو بائیڈن نے کہا کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے۔

صدر بائیڈن اور صدر میکخواں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ یوکرین کے ساتھ کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے اور یوکرین کو اپنی مرضی کے خلاف کوئی سمجھوتہ کرنے پر مجبور نہیں کریں گے۔

صدر بائیڈن کی صدر پوتن سے ملاقات کی تجویز پر کریملن نے کہا کہ صدر پوتن نے ملکی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے بات چیت کے دروازے کھلے رکھے ہوئے ہیں۔

البتہ روسی صدر کے ترجمان دمتری پیسکوو نے رپورٹروں کو بتایا کہ روس امریکی شرائط ماننے کے لیے قطعاً تیار نہیں ہے۔ انھوں نے کہا: ’صدر بائیڈن نے کہا کیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ بات چیت اسی وقت ہو سکتی ہے جب روس یوکرین سے نکل جائے۔‘

دمتری پیسکوو نے کہا کہ اگر امریکہ روس کے نئے خطوں کو ماننے کی تیار نہیں ہے تو پھر بات چیت کی بنیاد ختم ہو جاتی ہے۔

فرانسیسی صدر نے کہا کہ انھیں صدر بائیڈن کے خیالات سے مکمل اتفاق ہے اور وہ کبھی یوکرین کو کوئی ایسا سمجھوتہ کرنے کا نہیں کہیں گے جو یوکرین کو قبول نہ ہو۔

اٹلی کے وزیر خارجہ انتونیو تاجانی نے جعمہ کے روز کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ یوکرین کے لیے منصفانہ حل کے لیے کوششیں کی جائیں۔

اطالوی وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ کوششیں کیئو کی آزادی کے لیے ہوں نہ کہ اس کی شکست کے لیے۔

اطالوی وزیر خارجہ نے کہا، ’کریملین اب شہری آبادی پر بمباری کرنے کے بجائے ٹھوس تجاویز دے۔‘

دریں اثنا یوکرین کے دورے پر گئے ہوئے آرچ بشپ آف کینٹربری جسٹن ویلبی نے کہا کہ روس جب تک یوکرین میں اپنی کارروائیوں کے بارے میں جھوٹ بولنا بند نہیں کرے گا، اس وقت تک امن کا قیام ممکن نہیں ہے۔

آرچ بشپ آف کینٹربری نے بوچہ میں، جہاں روسی فوجیوں پر جنگی جرائم کا الزام ہے، بات کرتے ہوئے کہا کہ جھوٹ کی بنیاد پر آگے نہیں بڑھا جا سکتا ۔ یہاں مظالم کا ارتکاب کیا گیا ہے۔

یوکرین جنگ میں کتنے فوجی اور سویلین مارے گئے؟

یوکرین کے ایک اعلی اہلکار نے کہا تھا یوکرین پر 24 فروری کی روسی یلغار کے بعد سے 10 سے 13 ہزار یوکرینی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔

نہ تو روس اور نہ ہی یوکرین نے جنگ میں ہلاکتوں کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔ یوکرین کی فوج نے بھی صدر کے مشیر میخائلو پودولاک کے بیان کی تصدیق نہیں کی ہے۔

گزشتہ ماہ امریکی جنرل مائیک مائیلی نے کہا تھا کہ ایک لاکھ کے قریب یوکرینی اور ایک لاکھ روسی فوجی جنگ میں مارے یا زخمی ہو چکے ہیں۔

یوکرینی صدر کے مشیر میخائلو پودولاک نے ٹی وی چینل 24 سے بات کرتے ہوئے کہ یوکرین جنگ میں مارے جانے والوں کی بارے میں بات کر رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ جنگ میں مارے جانے عام شہریوں کی ’کافی بڑی‘ تعداد ہو سکتی ہے۔

یوکرینی صدر کے مشیر نے بھی جنگ میں روس کے ایک لاکھ فوجی مارے جانے کا ذکر کیا۔

یورپی کمیشن کی سربراہ ارسلا وان ڈر لین نے بدھ کے روز کہا تھا کہ جنگ میں ایک لاکھ یوکرینی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ البتہ یورپی کمیشن نے بعد میں اس بات کی وضاحت کی کہ ایک لاکھ یوکرینی فوجیوں کی ہلاکت کا بیان ’غلطی‘ تھی۔

یورپی کمیشن کی سربراہ نے 20 ہزار عام شہریوں کی ہلاکت کی بھی بات کی تھی۔

صدر جو بائیڈن اور صدر میخواں کے مابین بات چیت کے بعد دونوں ملکوں نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں یوکرین کی خود مختاری اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت میں مدد جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا گیا۔

مشترکہ بیان میں یوکرین کو ایئر ڈیفنس نظام کی ڈلیوری کی کوششوں کو تیز کرنے کا بھی ذکر کیاگیا ہے۔

دونوں سربراہان نے 13 دسمبر کو پیرس میں یوکرین پر عالمی کانفرنس کرانے کا اعلان کیا ہے۔

یوکرین کی فوج نےکہا ہے کہ روس جوہری ہتھیاروں کو لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے میزائیل استعمال کر رہا ہے۔

یوکرین کے ایک فوجی ماہر نے کہا روسی جوہری ہتھیاروں کو لے جانے کی صلاحیت والوں میزائیلوں کو جوہری ہتھیاروں کے بغیر یوکرینی انفراسٹرکچر کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ روسی اپنے روایتی میزائیلوں کو بڑی تعداد میں استعمال کرنے کے بعد اس کے پاس ان کا ذخیرہ کم ہو گیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں