مہسا امینی کی ہلاکت اور مسلسل احتجاج: ایرانی حکومت کا اخلاقی پولیس ختم کرنے کا اعلان

تہران (ڈیلی اردو/اے ایف پی/رائٹرز/بی بی سی) تہران حکومت کا یہ فیصلہ اخلاقی پولیس کی حراست میں مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد مظاہروں کے دباؤ کا نتیجہ نظر آتا ہے۔ ناقدین کے مطابق مسئلہ اخلاقی پولیس کا نہیں بلکہ سر پر لازمی اسکارف اوڑھنے کے قانون کا ہے۔

ایران میں گزشتہ دو ماہ سے جاری مظاہروں کے بعد حکومت نے سخت گیر اخلاقی پولیس کا محمکہ ختم کر نے کا اعلان کر دیا ہے۔ ایرانی ذرائع ابلاغ نے اتوار کے روز اٹارنی جنرل محمد جعفر منتظری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اخلاقی پولیس کا محمکہ ختم کر دیا جائے گا۔

ایرانی نیوز ایجنسی اسنا کے مطابق منتظری کا کہنا تھا، ”اخلاقی پولیس کا عدلیہ سے کوئی تعلق نہیں اور اس لیے اسے ختم کر دیا گیا ہے۔‘‘

تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آیا یہ پولیس فورس ایک بار پھر کسی دوسرے مقصد یا نام کے ساتھ کھڑی کی جائے گی؟ سرکاری خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق “اخلاقی” جرائم کے لیے سزائے موت اور قانونی کارروائی کا عمل جاری رہے گی۔ منتظری نے ہفتے کے روز مذہب پر مبنی پالیسی کا خاکہ پیش کرنے والی ایک کانفرنس کو بتایا،”یقیناً، عدلیہ طرز عمل کی نگرانی جاری رکھے ہوئے ہے۔‘‘

یونیورسٹی آف سسیکس میں بین الاقوامی تعلقات کے سینئر لیکچرار کامران متین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اٹارنی جنرل کے اعلان کو احتیاط کے ساتھ دیکھا جانا چاہیے۔ متین نے واضح کیا کہ ایران کی اخلاقی پولیس عدالتی نظام کا حصہ نہیں ہے بلکہ اسے قانون نافذ کرنے والی نام نہاد فورسز یا پولیس فورس چلاتی ہے۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے متین کا کہنا تھا،”ایسا اعلان واقعی اس(عدلیہ) کے ادارے کو کرنا چاہیے اور ایسا ابھی تک نہیں ہوا۔‘‘

تہران حکومت دباؤ کا شکار

ستمبر کے مہینے میں 22 سالہ مہسا امینی کو حجاب صحیح طریقے سے نہ پہننے پر اخلاقی پولیس نے گرفتار کیا تھا تاہم وہ دوران حراست انتقال کر گئی تھیں۔ ان کی ہلاکت کے بعد ملک بھر میں مہینوں تک حکومت مخالف مظاہرے ہوئے۔ ان مظاہروں کی اندورن ملک کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی وسیع پیمانے پر حمایت کی گئی۔ اسی باعث امینی کی موت کے بعد سے تہران حکومت کافی دباؤ میں ہے۔

دوسری جانب حکومت کے ناقدین نے اس اعلان پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ناقدین کے مطابق مسئلہ اخلاقی پولیس کا نہیں بلکہ سر پر لازمی اسکارف اوڑھنے کے قانون کا ہے۔ گزشتہ روز محمد جعفر منتظری نے یہ بھی کہا تھا کہ ایرانی پارلیمان اور عدلیہ حجاب قانون کا ازسر نو جائزہ لے رہے ہیں اور آئندہ چند دنوں میں اس حوالے سے عوام کو تنائج سے آگاہ کیا جائے گا۔ ایران میں گزشتہ کئی ہفتوں سے حجاب قانون اور اخلاقی پولیس کے خلاف مظاہرے جاری ہیں، جن میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

نام نہاد اخلاقی پولیس ایران کی پولیس فورس کی ایک اکائی ہے، جسے اسلامی لباس کے ضابطوں اور عوام میں دیگر سماجی رویوں سے متعلق قوانین کو نافذ کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔ اس فورس نے 2006 ء میں قدامت پسند صدر محمود احمدی نژاد کےاقتدار میں آنے کے بعد سڑکوں پر گشت شروع کیا تھا۔

ایران میں حجاب اسلامی انقلاب کے چار برس بعد اپریل 1983 میں نافذ کیا گیا تھا۔ اس انقلاب میں امریکہ کی پشت پناہی سے قائم بادشاہت کا خاتمہ ہوا تھا۔

ایران میں حجاب انتہائی نازک معاملہ تصور کیا جاتا ہے جو کہ قدامت پسندوں کے نزدیک لازمی ہونا چاہیے جب کہ اصلاح پسند اسے انفرادی انتخاب پر چھوڑنا چاہتے ہیں۔

مہسا امینی کی موت کے بعد احتجاج پر اوسلو میں قائم انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم کا کہنا ہے کہ کم از کم 448 افراد ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ گزشتہ ہفتے کہہ چکے ہیں کہ 14 ہزار افراد جن میں بچے بھی شامل ہیں، مظاہروں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں میں گرفتار کیے جا چکے ہیں۔

ایران میں انقلاب کے بعد جاری حکم نامہ

ایرانی حکام کی ’خراب حجاب‘ کے خلاف جنگ یعنی سر پر سکارف یا دیگر لازمی لباس کو غلط طریقے سے پہننے کے خلاف کارروائی کا سلسلہ سنہ 1979 کے اسلامی انقلاب کے فوراً بعد شروع ہوا تھا جس کا ایک بڑا مقصد خواتین کو عام اور سادہ لباس پہنانا تھا۔

مغرب نواز شاہ محمد رضا پہلوی کا تختہ الٹنے سے پہلے تہران کی سڑکوں پر منی سکرٹس اور کھلے بالوں کے ساتھ خواتین کا نظر آنا کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ شاہ محمد رضا پہلوی کی اہلیہ فرح، جو اکثر مغربی لباس پہنتی تھیں، کو ایک جدید عورت کی مثال کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔

تاہم، ایران میں اسلامی انقلاب کے چند مہینوں کے اندر ہی شاہ رضا پہلوی کے دورِ حکومت میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے قائم کردہ قوانین منسوخ ہونے لگے تھے۔

انسانی حقوق کی وکیل اور کارکن مہرنگیز کار جنھوں نے پہلے حجاب مخالف مظاہرے کو کرنے میں مدد کی تھی کا کہنا تھا کہ ’یہ راتوں رات نہیں ہوا تھا، یہ ایک مرحلہ وار عمل تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’انقلاب کے فوراً بعد سڑکوں پر مرد و عورت زرق برق لباس میں ملبوس خواتین کو مفت سکارف بانٹ رہے تھے۔‘

سات مارچ 1979 کو انقلاب کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ روح اللہ خمینی نے حکم جاری کیا کہ تمام خواتین کے لیے ان کی کام کی جگہوں پر حجاب لازمی ہو گا اور وہ بے پردہ خواتین کو ’برہنہ‘ تصور کرتے ہیں۔

مہرنگیز کار جو اب امریکہ کے شہر واشنگٹن ڈی سی میں رہتی ہیں کا کہنا تھا کہ ’ان کے اس خطاب کو بہت سے انقلابیوں نے خواتین کے سروں پر زبردستی حجاب پہنانے کے حکم کے طور پر لیا تھا، اور بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ یہ راتوں رات ہونے والا ہے، اس لیے خواتین نے مزاحمت شروع کر دی اور ایک لاکھ سے زیادہ افراد جن میں زیادہ تر تعداد خواتین کی تھی اگلے دن خواتین کے عالمی دن کے موقع پر تہران کی سڑکوں پر احتجاج کے لیے جمع ہوئے تھے۔‘

ایران کے رہبر اعلیٰ کے فرمان کے باوجود حکام کو یہ فیصلہ کرنے میں کچھ وقت لگا کہ خواتین کے لیے ’مناسب‘ لباس کس کو سمجھا جائے۔

انھوں نے بتایا تھا کہ ’چونکہ اس بارے میں کوئی واضح ہدایات نہیں تھیں تو (وہ) ایسے پوسٹرز اور بینرز لے کر آئے جن میں ماڈلز کو دکھایا گیا تھا اور ان پوسٹرز اور بینروں کو دفاتر کی دیوراروں پر لٹکا دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ خواتین کو اس ہدایات (حجاب پہننے سے متعلق) پر عمل کرنا لازمی ہے ورنہ انھیں دفتر داخلے کی اجازت نہیں ہو گی۔‘

سنہ 1981 تک، ایران میں خواتین اور لڑکیوں کو قانونی طور پر سادہ ’اسلامی‘ لباس پہننے کی اجازت تھی یعنی گھر سے باہر جاتے وقت ایک پورے جسم کو ڈھاپنے والی چادر اوڑھنے اور سر پر سکارف پہننا ضروری تھا۔

مہرنگیز کار کہتی ہیں کہ مگر انفرادی سطح پر لازمی حجاب کے خلاف لڑائی جاری رہی اور ہم نے سر کا سکارف پہننے یا سر کے بالوں کو مکمل طور پر نہ ڈھانپنے کے لیے تخلیقی انداز سے حل نکال لیا تھا۔

’ہر ایک مرتبہ جب وہ ہمیں روکتے ہم لڑائی شروع کر دیتیں۔‘

سنہ 1983 میں ایرانی پارلیمان نے فیصلہ کیا کہ جو خواتین سرعام اپنے بال نہیں ڈھانپتی ہیں انھیں 74 کوڑوں کی سزا دی جا سکتی ہے۔ ابھی حال ہی میں، اس قانون میں 60 دن تک قید کی سزا کا اضافہ کیا گیا ہے۔

اس کے باوجود حکام اب تک اس قانون کو نافذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ملک میں ہر عمر کی خواتین گھروں سے باہر اپنی حدود کو بڑھاتے ہوئے اکثر شوخ رنگوں کے سکارف میں آدھے سر کے بالوں کو ڈھانپے اور چست لباس پہنے نظر آتی ہیں۔

’سخت کارروائیاں‘

اس قانون کے نافذ کیے جانے کے بعد سے ان برسوں کے دوران ملک کے اقتدار پر رہنے والے صدر کے مطابق اس قانون کی سزاؤں میں تبدیلیاں اور شدت آتی گئی۔

تہران کے اس وقت کے انتہائی قدامت پسند میئر محمود احمدی نژاد نے جب 2004 میں صدارت کے لیے انتخابی مہم چلائی تھی تو اس معاملے پر زیادہ ترقی پسند دکھائی دینے کی کوشش کی تھی۔

انھوں نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہا تھا کہ ’لوگوں کے مخلتف پسند ہے اور ہمیں اس سب کا خیال رکھنا ہے۔‘

مگر صدارتی انتخاب میں کامیابی کے فوراً بعد اس برس انھوں نے گشتِ ارشاد (اخلاقی پولیس) کو باضابطہ طور پر قائم کیا تھا۔ اس وقت تک دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور نیم فوجی یونٹوں کے ذریعہ خواتین کے لباس کے ضابطوں کو غیر رسمی طور پر نافذ کیا گیا تھا۔

ایران کی اس اخلاقی پولیس فورس کو اکثر عوام کی طرف سے اُن کے سخت رویے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا، اور خواتین کو اکثر حراست میں لیا جاتا تھا اور صرف اس صورت میں رہا کیا جاتا ہے جب کوئی رشتہ دار یقین دہانی کرائے کہ وہ مستقبل میں قوانین کی پابندی کریں گی۔

ایران کے وسطی شہر اصفہان سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’مجھے اپنی بیٹی کے ساتھ اس وقت گرفتار کیا گیا جب ہمیں ہماری لپ اسٹک کی وجہ سے روکا گیا تھا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’وہ ہمیں پولیس سٹیشن لے گئے اور میرے شوہر سے کہا کہ وہ آئیں اور ایک کاغذ پر دستخط کریں کہ وہ ہمیں حجاب کے بغیر باہر نہیں جانے دیں گے۔‘

تہران سے ایک اور خاتون نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ایک خاتون افسر نے ان سے کہا کہ ان کے جوتے مردوں کے لیے ’بہت شہوت انگیز‘ ہیں اور انھیں حراست میں لے لیا گیا۔

انھوں نے بتایا کہ ’میں نے اپنے شوہر کو کال کی اور کہا جوتے کا ایک اور جوڑا لا کر دیں۔ پھر میں نے ایک کاغذ پر دستخط کیے جس میں، میں نے اعتراف کیا کہ میں نے غیر مناسب لباس پہنا ہوا تھا اور اب میرا مجرمانہ ریکارڈ موجود ہے۔‘

ایران کی اخلاقی پولیس کے ساتھ تجربات کی دیگر رپورٹس، جو بی بی سی کے ساتھ شیئر کی گئی ہیں، ان میں مار پیٹ اور مزید ظالمانہ اور غیر معمولی سزائیں شامل ہیں۔

ایک خاتون نے بتایا تھا کہ پولیس نے اس کی گرفتاری کے دوران اس کے جسم پر لال بیگ چھوڑنے کی دھمکی دی تھی۔

’نئی پابندیاں اور کارروائیاں‘

ابرہیم رئیسی ،ایک سخت گیر عالم جو گذشتہ سال ایرانی صدر منتخب ہوئے تھے، نے 15 اگست کو پابندیوں کی ایک نئی فہرست کو نافذ کرنے کے حکم پر دستخط کیے تھے۔

ان میں نگرانی کرنے والے کیمروں کو شامل کیا گیا تھا تاکہ نقاب نہ کرنے والی خواتین کی نگرانی اور جرمانے کیے جا سکے یا انھیں ’کونسلنگ‘ کے لیے بھیجا جا سکے، اور کسی بھی ایرانی خاتون جو آن لائن حجاب کے قوانین کے خلاف سوال یا مواد پوسٹ کرے کو لازمی سزا یا قید دیے جانا شامل ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں