پاکستان کیوں انتہاپسندی سے چھٹکارہ حاصل نہیں کر پا رہا؟

اسلام آباد (ڈیلی اردو/رائٹرز/ڈی پی اے) جنوبی ایشیا کی جوہری ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان پر دہشت گردی اور شورش کے خطرات پھر سے منڈلا رہے ہیں۔ سرحدی علاقے میں اب بھی عسکریت پسندوں کے خفیہ ٹھکانے موجود ہیں۔

پاکستان کے شورش زدہ شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا کا ایک حصہ عسکریت پسندوں کی پناہ گاہ بنا ہوا ہے، جہاں سے یہ جنگجو پولیس اور دیگر سکیورٹی حکام پر حملے کرتے رہتے ہیں۔ افغانستان کی سرحد سے متصل اس علاقے میں مبینہ طور پر تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوؤں کا گڑھ ہے۔ یہ سُنی انتہا پسند عسکری تنظیم کے زیر پرستی کام کرتا ہے۔

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کی ایک مسجد میں گزشتہ ماہ ہونے والا بم دھماکہ، جس میں 80 سے زائد پولیس اہلکار ہلاک ہوئے تھے، اس گروپ کی شورش زدگی اور اس کی پشت پناہی کرنے والے عناصر کی طاقت کا مظاہرہ تھا۔ اس دھماکے کی ذمہ داری جماعت الاحرار نے قبول کی تھی۔

رائٹرز کا شورش زدہ علاقے کا جائزہ

خبرر رساں ایجنسی رائٹرز نے رواں ماہ خیبر پختونخوا میں چند پولیس چوکیوں تک رسائی حاصل کی اور اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ایک درجن سے زائد افراد سے بات چیت کی۔ ان میں سینیئر پولیس حکام سمیت دیگر علاقائی باشندے شامل تھے۔ ان سب نے بتایا کہ کیسے انہیں انتہا پسند جنگجوؤں سے خطرات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور کس حد تک انہیں نقصانات اُٹھانا پڑ رہے ہیں۔

انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ باغیوں کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کے پاس نہ تو کافی ذرائع موجود ہیں اور نہ ہی لاجسٹک سہولیات موجود ہیں۔ پاکستانی حکام ان چیلنجز کو تسلیم کرتے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ موجودہ معاشی بدحالی اور تباہ ہوتی اقتصادی صورتحال جیسے منفی حالات کے باوجود اپنی سکیورٹی فورسزکو بہتر بنانے کو کوشش کر رہے ہیں۔

‘راستے کی رکاوٹیں‘

پاکستان کے اس شورش زدہ علاقے کی پولیس برسوں سے مسلم انتہا پسندوں سے لڑ رہی ہے۔ 2001ء سے اب تک 2100 اہلکار ہلاک اور 7000 سے زائد زخمی ہو چُکے ہیں۔ لیکن وہ کبھی بھی عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کا اس طرح سے مرکز نہیں رہے جس طرح وہ اب مرکز بن گئے ہیں۔ منظور شہید چوکی کو کنٹرول کرنے والے سربند اسٹیشن کے سب انسپکٹر جو اس چوکی کو کنٹرول کرتے ہیں کا کہنا تھا،”ہم نے عسکریت پسندوں کا پشاور جانے کا راستہ روک دیا ہے۔‘‘

سربند اور اس کی آٹھ چوکیوں کو حالیہ مہینوں میں چار بڑے نقصانات کا سامنا ہوا۔ اس علاقے کی پولیس کے مطابق گزشتہ مہینوں میں حملوں اور اسنائپر فائرز کی اتنی بوچھاڑ ہوئی جو اس سے پہلے نہیں ہوئی تھی۔

خیبرپختونخوا میں گزشتہ سال دہشت گردانہ حملوں کے نتیجے میں پولیس کے قتل کی تعداد 119 تک پہنچ گئی جبکہ اس سے ایک سال قبل یعنی 2021ء میں یہ تعداد 54 اور 2020ء میں21 تھی۔ اس سال زیادہ تر مساجد میں بم دھماکے ہوئے تاہم دہشت گردانہ حملے دوسری جگہ بھی ہونے لگے ہیں۔ 17 فروری کو کراچی میں عسکریت پسندوں نے پولیس کے دفتر پر دھاوا بول دیا اور سکیورٹی فورسز کے دوبارہ قبضے سے پہلے سکیورٹی فورسز کے چار ہلاک اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔ اس احاطے میں سکیورٹی فورسز نے تین حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا تھا۔

تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) گرچہ افغان طالبان کے ہاتھوں بیعت کر چُکی ہے تاہم یہ براہ راست کابل پر حکومت کرنے والے طالبان گروپ کا حصہ نہیں ہے۔ ٹی ٹی پی کا مقصد پاکستان میں کٹر نظریات کے حامل اسلامی قوانین کا نفاذ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں