میانمار میں فوج کے فضائی حملے میں ہلاکتوں کی تعداد 170 سے بڑھ گئی

ینگون (ڈیلی اردو/وی او اے/اے ایف پی) لاشوں کو جلانے میں شامل ٹیم کے ایک رکن ور میڈیا رپورٹس کے مطابق میانمار کے وسطی گاؤں پر فضائی حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد جمعے کے روزتخمینا 171 تک پہنچ گئ ہے۔

میانمار اس وقت سے بحران کی زد میں ہے جب فوج نے فروری 2021 کی بغاوت کر کے آنگ سان سوچی کی سویلین حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ جس کے بعد فوجی حکمرانوں نے اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف ایک بڑا کریک ڈاؤن کیاجس میں ایک اندازے کے مطابق 3200 شہری مارے گئے تھے۔

وسطی ساگانگ علاقے کے پازی گی گاؤں پر منگل کی صبح کے فضائی حملے میں ہلاک ہونے والوں تعداد کے بارے میں سرکاری طور پر کچھ نہیں بتایا گیا ہے لیکن فوجی حکام نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ انہوں نے علاقے میں کارروائی کی ۔

لاشوں کو جلانے میں شامل ایک دیہاتی نے، جس نے اپنے تحفظ کے لیے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کو کہا، بتایا ہے کہ جمعہ کو ان کی ٹیم نے ہلاک ہونے والوں کی ایک دن پہلے بتائی گئی130 کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے اور اب یہ تعداد بڑھ کر 171 ہو گئی ہے۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ 109 مرد، 24 خواتین اور 38 بچے ہلاک ہوئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 53 زخمیوں کو طبی امداد دی جا رہی ہے۔

بی بی سی برما نے بھی مرنے والوں کی تعداد 171 بتائی ہے جب کہ منڈالے فری پریس کے مطابق یہ تعداد 170 ہے۔

میانمار کی قومی اتحاد کی حکومت نے جو ایک خفیہ ادارہ ہے اور جس پر، سوچی کی پارٹی کے سابق قانون سازوں کا غلبہ ہے جمعہ کو ایک ٹویٹ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 168 بتائی ہے۔

پازی گی گاؤں جمعہ کو بالکل ویران اور سنسان تھااور گاؤں والے بھی واپس جانے سے بہت خوفزدہ تھے۔

میانمار کے بدھ مت کے نئے سال کی آمد سے ایک رات قبل کے، واٹر فیسٹول یا پانی کے تہوار تھنگیان کے موقع پر ہونے والے اس حملے پر بین الاقوامی سطح پر غم و غصہ پیدا ہوا ہے۔

میانمار کے سابق نو آبادیاتی حکمراں برطانیہ نے اس واقعے پر بات چیت کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کو کہا ہے۔

جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم (آسیان)نے، جس نے میانمار کے بحران کو حل کرنے کے لیے اب تک بے نتیجہ سفارتی کوششوں کی قیادت کی ہے، جمعرات کو ہوائی حملوں کی شدید مذمت کی۔

ساگانگ علاقہ میانمار کے دوسرے سب سے بڑے شہر منڈالے کے قریب باغیوں کامضبوط گڑھ ہے۔ اس نے فوج کی حکمرانی کے خلاف ہونے والی شدید ترین مزاحمتوں میں سے ایک مزاحمت کی ہے، جہاں مہینوں سے شدید لڑائی جاری ہے۔

جنتا نے بدھ کے روز یہ تصدیق کی کہ اس نے علاقے میں “محدود” فضائی حملے کیے ہیں اور کچھ ہلاکتوں کا الزام جنتا مخالف جنگجوؤں کی بچھائی گئی بارودی سرنگوں پر لگایا ہے۔

اس نے جمعے روز یہ بھی کہا کہ باغیوں نے ایک ڈرون سے کیوپون نامی گاؤں پر چار بم گرائے تھے جس کے نتیجے میں پانچ بچوں سمیت آٹھ افراد ہلاک اور 31 دیگر زخمی ہو گئے تھے، یہ گاؤں بھی ساگانگ کے خطےمیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں