امرتسر: سکھوں کی مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل کے باہر ایک ہفتے میں تیسرا دھماکا

نئی دہلی (ڈیلی اردو/وی او اے) بھارت کی ریاست پنجاب کے شہر امرتسر میں جمعرات کو سکھوں کی سب سے بڑی عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل کے باہر ایک اور دھماکہ ہوا ہے۔ عہدے داروں کا کہنا ہے کہ دھماکہ دیسی ساختہ تھا جس کی شدت اتنی زیادہ نہیں تھی۔دھماکےسے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔

گزشتہ چھ دن میں اس علاقے میں جہاں سکھ عقیدت مندوں کا تانتا بندھا رہتا ہے اس قسم کا یہ تیسرا دھماکہ ہے۔

امرتسر پولیس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے پتہ چلا ہے کہ ایک شخص نے گرو رام داس سرائے کی تیسری منزل کی ایک کھڑکی سے گلیریا نامی گلی میں بم پھینکا جب کہ اسی عمارت سے چند پمفلٹ بھی سڑک پر پھینکے گئے۔ ان پمفلٹس پر کیا لکھا تھا یہ ابھی واضح نہیں ہے۔

سی سی ٹی وی کیمرے میں ایک شخص کو عمارت کے واش روم میں جاتے اور پھر اچانک باہر آتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے۔ اس شخص کے بارے میں پولیس کا کہنا ہے کہ وہ بھارتی پنجاب کے علاقے بابابکالا کا رہنے والا ہے اور دھماکے کے بعد وہ اسی سرائے میں سویا تھا۔

گلیریا گلی گولڈن ٹیمپل کو جانے والا ایک راستہ ہے جس پر سکھ زائرین دن رات نظر آتے ہیں۔

پولیس نے بتایا ہے کہ بم پھینکنے والے اس شخص کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ پنجاب پولیس کے سربراہ ڈائریکٹر جنرل گورویادو نے بتایا کہ گولڈن ٹیمپل کے باہر اس سے پہلے ہونے والے دھماکوں کی تحقیقات کرلی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں اب تک پانچ افراد کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب پولیس ریاست میں قیامِ امن کے لیے کوشاں ہے۔ اس سلسلے میں وزیرِاعلیٰ بھگونت مان کی ہدایات پر عمل کیا جا رہا ہے۔

بھارتی پنجاب کی پولیس کے سربراہ گور یادو نے امرتسر میں ایک نیوز کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ تینوں دھماکوں کے شبہے میں جن پانچ افراد کو گرفتار کیاگیا ہے انہوں نے اعترافِ جرم کرلیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ پولیس کی ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی جارہی ہے جو ملزموں کے بھارت یا بیرونِ ملک روابط اور ان دھماکوں کے پس پردہ مقاصد کا پتا لگائے گی۔

خالصتان تحریک سر اٹھا رہی ہے؟

صحافی اور تجزیہ کار اسیت جولی نےوائس آف امریکہ کو بتایا کہ اگر پولیس نے واقعی ان دھماکوں میں ملوث افراد کو گرفتار کرلیا ہے تو وہ اب تک یہ جان چکی ہوگی کہ یہ دھماکے کیوں گرائے گئے۔

ان کا کہنا ہے کہ عام لوگ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات کے پیچھے علیحدگی پسند خالصتان فورسز کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔ وہ اپنی موجودگی کا احساس دلانا چاہتے ہیں اور امرتسر جیسے اہم اور حساس شہر میں خوف پیدا کرنا چاہتے ہیں۔

ان کے بقول 13-2012 کے بعد پنجاب میں سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانوں میں انتہا پسندی بڑھ گئی ہے جب کہ ان نوجوانوں کو بیرونِ ملک سے شہ بھی مل رہی ہے۔اس کے علاوہ پنجاب میں گن مافیا اور دوسرے منفی سوچ رکھنے والے عناصر بھی سرگرم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ برسوں میں پنجاب میں قتل اور تشدد کے جو متعدد واقعات پیش آئے ہیں۔ ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں ان ہی عناصر کا ہاتھ ہے۔ اگرچہ ان میں سے اکثر کا ماضی یا حال کی خالصتان تحریک سے بلا واسطہ کوئی تعلق نہیں ہے البتہ امریکہ میں سرگرم انتہا پسند تنظیم ‘سکھس فار جسٹس’ کے بانی صدر گرپتونت سنگھ پنان اور ‘وارث پنجاب دے ‘ کے سربراہ امرت پال سنگھ سے خاصے متاثر لگتے ہیں۔

بعض ددسرے مبصرین کا خیال ہے کہ بھارتی پنجاب میں خالصتان کے حامی عناصر تیزی کے ساتھ ایک بار پھر اپنا سر اٹھارہے ہیں اور اس طرح کے واقعات ان کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ لیکن پولیس حکام کا کہنا ہے کہ صورتِ حال تمام قیاس آرائیوں کے برعکس ہر لحاظ سے معمول کے مطابق ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ جہاں تک خالصتان کے حامی افراد اور ان کے بقول دوسرے شر پسند عناصر کا تعلق ہے ان سے قانون کے تحت نمٹنے کے سلسلے میں تمام قدامات کیے جارہے ہیں۔

پولیس نے گزشتہ ماہ بنیاد پرست سکھ مبلغ اور خالصتان حامی لیڈر امرت پال سنگھ کو کئی ہفتے بعد پنجاب کے ضلع موگا کے روڑی نامی گاؤں سے گرفتار کیا تھا۔ اس سے قبل امرت پال سنگھ کو مفرور قرار دیا تھا۔ بعض اطلاعات میں بتایا گیا تھا کہ امرت پال نے خود کو پولیس کے حوالے کیا تھا۔پولیس نے امرت پال کی گرفتاری کے بعد ان کے خلاف سخت گیر قانون نیشنل سیکیورٹی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کردیا تھا اور انہیں فوری طور پر شمال مشرقی ریاست آسام کی ڈبرو گڑھ جیل منتقل کردیا تھا۔

امرت پال سنگھ خالصتان تحریک کے سکھ لیڈر جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے کو اپنا لیڈر قرار دیتے ہیں۔ جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے جون 1984 میں گولڈن ٹیمپل میں پناہ لینے والے سکھ انتہا پسندوں کے خلاف بھارتی فوج کی طرف سے کیے گئے ‘آپریشن بلیو اسٹار’ کے دوران ہلاک ہوگئے تھے۔

امرت پال سنگھ نے رواں برس فروری میں اپنے ایک ساتھی کو پولیس حراست سے چھڑانے کے لیے امرتسر کے نزدیکی قصبے اجنالہ میں اپنے سیکڑوں ساتھیوں کے ساتھ مل کر پولیس اسٹیشن پر یلغار بھی کردی کی تھی۔ ان کی ایسی سرگرمیاں ریاستی اور وفاقی حکومتوں کے لیے تشویش کا باعث بن گئی تھیں اور انہیں حراست میں لینے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن امرت پال روپوش ہوگئے اور گرفتاری سے بچنے کے لیے پولیس کو چکمہ دیتے رہے۔

اس دوران پولیس نے ان کے کئی قریبی ساتھیوں اور امرت پال کو پناہ دینے والوں کو گرفتار کیا اور ان پر پنجاب میں امن ِ عامہ میں خلل ڈالنے، علیحدگی پسندی کو ہوا دینے اور ملک سے غداری کرنے کے الزامات کے تحت مقدمات درج کیے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں