یوکرینی جنگ کے دوران جوہری ہتھیاروں میں اضافہ

سٹاک ہوم (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی پی اے) عالمی تناؤ میں اضافے کے سبب تخفیف اسلحہ میں پیش رفت کے بجائے اب یہ بتدریج پیچھے کی جانب مائل ہے، کیونکہ سفارت کاری ناکام ہو رہی ہے۔ بھارت اور پاکستان بھی اپنے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کو بڑھا رہے ہیں۔

عسکری اخراجات اور اسلحے کی بین الاقوامی تجارت پر نظر رکھنے والے سویڈش ادارے ‘سپری’ کے مطابق گزشتہ برس کے مقابلے میں اب دنیا بھر میں کہیں زیادہ قابل استعمال جوہری ہتھیار موجود ہیں۔

اس تازہ رپورٹ کے مطابق زیادہ ہتھیار ہونے کے ساتھ ہی دنیا کی اہم جوہری طاقتوں کے درمیان رابطے اور تعلقات بھی کئی دہائیوں بعد اب کم ترین سطح پر ہیں۔

بارہ جون پیر کے روز جاری کردہ اپنی رپورٹ میں اس آزاد ادارے نے ہتھیاروں اور تخفیف اسلحہ کی حالت کا سالانہ جائزہ پیش کیا ہے۔ اس کے مطابق جنوری 2023 تک ممکنہ استعمال کے لائق جوہری ہتھیاروں کا جو ذخیرہ ہے، اس میں اندازے کے مطابق 9,576 وار ہیڈز موجود تھے۔

یہ تازہ اعداد و شمار جنوری 2022 کے بعد سے مزید 86 جوہری ہتھیاروں کے اضافے کی نمائندگی کرتے ہیں۔

جوہری ہتھیاروں سے خطرے میں اضافہ

سپری کے مطابق عالمی سطح پر مجموعی تعداد تقریباً 12,512 وار ہیڈز پر مشتمل ہے۔ اس میں وہ پرانے جوہری وار ہیڈز بھی شامل ہیں، جو قابل استعمال نہیں اور انہیں تلف کیا جانا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ”عالمی سطح پر آپریشنل وار ہیڈز کی کمی کا عمل اب رک گیا ہے اور جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں دوبارہ اضافہ ہو رہا ہے۔”

ادارے کے ڈائریکٹر ڈین اسمتھ نے کہا، ”انتہائی سطح کی جیو پولیٹکل کشیدگی اور عدم اعتماد کے اس دور میں، جوہری ہتھیاروں سے لیس حریفوں کے درمیان یا تو مواصلاتی راستے بند ہیں یا پھر بمشکل کام کر رہے ہیں۔ غلط اندازے، غلط فہمیاں یا پھر حادثات کی وجہ سے ہونے والے خطرات ناقابل قبول حد تک زیادہ ہیں۔”

انہوں نے مزید کہا کہ ”جوہری سفارت کاری کو بحال کرنے اور جوہری ہتھیاروں پر بین الاقوامی کنٹرول کو مضبوط کرنے کی فوری ضرورت ہے۔”

امریکہ اور روس کے جوہری ہتھیار ہائی الرٹ پر

رپورٹ کے مطابق ممکنہ استعمال کے لائق تقریبا 9,576 وار ہیڈز میں سے لگ بھگ 2000، جن میں سے تقریباً تمام کا تعلق روس یا امریکہ سے ہے، کو ہائی آپریشنل الرٹ کی حالت میں رکھا گیا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ انہیں ایسے میزائلوں میں نصب کیا گیا یا پھر ایسے مخصوص ایئربیس پر رکھا گیا، جہاں سے انہیں لے جایا سکتا ہو۔

دنیا میں جوہری ہتھیاروں سے لیس نو ممالک ہیں، یعنی امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس، چین، بھارت، پاکستان، شمالی کوریا اور اسرائیل۔

یوکرین جنگ نے جوہری ذخیرے کو متاثر کیا

گزشتہ برس فروری میں یوکرین کے خلاف روسی حملہ شروع ہونے کے بعد ماسکو اور واشنگٹن ایک بار پھر سے ایک دوسرے کے براہ راست سب سے بڑے مخالف بن کر ابھرے ہیں۔

روس نے رواں برس کے اوائل فروری میں نیو اسٹارٹ معاہدے میں اپنی شرکت کو معطل کر دیا تھا۔ یہ امریکہ اور ماسکو کے درمیان جوہری ہتھیاروں کے کنٹرول سے متعلق واحد باقی ماندہ معاہدہ ہے۔

نیو اسٹارٹ معاہدے پر سن 2010 میں دستخط کیے گئے تھے، جس کے تحت جوہری ہتھیاروں کے مقامات کے معائنے اور بین البراعظمی اور آبدوز پر مبنی بیلسٹک میزائلوں کی جگہ کے بارے میں معلومات کے اشتراک کی اجازت ہے۔

سپری کے مطابق دنیا کے تمام ہتھیاروں میں امریکہ اور روس کے پاس تقریباً 90 فیصد ایٹمی ہتھیار ہیں۔

اگرچہ ادارے کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سن 2022 میں متعلقہ جوہری ہتھیاروں یا قابل استعمال وار ہیڈز کا سائز نسبتاً مستحکم رہا، تاہم دونوں ممالک میں جوہری قوت کے حوالے سے شفافیت میں کمی آئی ہے۔

اس سے قبل دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد سے امریکہ سرد جنگ کے دوران اپنے حریف سوویت یونین کے ساتھ جوہری ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل رہا تھا، یہاں تک 30 برس قبل سویت یونین کا خاتمہ ہو گیا۔

یوکرین میں جنگ کے سبب دونوں عالمی طاقتوں کے درمیان ایک بار پھر سے تعلقات اپنے نچلے ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔

چین اور دوسرے ممالک کے جوہری ہتھیاروں کے ذخائر میں اضافہ

تازہ رپورٹ کے مطابق چین کے جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ جنوری سن 2022 میں 350 وار ہیڈز پر مشتمل تھا، جو اس برس بڑھ کر 410 ہو گیا ہے اور توقع ہے کہ اس میں مزید اضافہ جاری رہے گا۔

خیال کیا جاتا ہے کہ برطانیہ کا جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ سن 2022 میں بھی پہلے ہی جیسا رہا۔ لیکن مستقبل میں اس کے ذخیرے میں بھی اضافے کی توقع ہے، کیونکہ برطانیہ کی حکومت نے سن 2021 میں اعلان کیا تھا کہ وہ اپنی حد 225 ہتھیاروں سے بڑھا کر 260 کر رہا ہے۔

بھارت اور پاکستان بھی اپنے جوہری ہتھیاروں کو بڑھا رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق جہاں پاکستان اپنی نظریں بھارت پر مرکوز کیے ہوئے ہے، وہیں بھارت طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں پر زور دے رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت ایسے ہتھیار تیار کر رہا ہے، جو پورے چین میں اہداف تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ادھر شمالی کوریا اپنی قومی سلامتی کی حکمت عملی کے مرکزی حصے کے طور پر اپنے فوجی جوہری پروگرام کو ترجیح دینا جاری رکھے ہوئے ہے۔

اسرائیل، جو اپنی جوہری قوتوں کو عوامی سطح پر تسلیم نہیں کرتا، بھی اپنے جوہری ہتھیاروں کو بڑھا رہا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں