پیمرا کا نیا بل: آزاد پریس کسی ملک کے جمہوری مستقبل کیلئے کلیدی حیثیت رکھتا ہے، امریکی محکمہ خارجہ

واشنگٹن (ڈیلی اردو/وی او اے) امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ آزاد پریس اور معلومات کے حامل شہری کسی بھی ملک اور اس کے جمہوری مستقبل کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے یہ بات معمول کی پریس بریفنگ میں ایک سوال کے جواب میں کہی جس میں پاکستان میڈیا الیکٹرونک ریگو لیٹری اتھارٹی یا پیمرا کے ایک نئے بل کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان پٹیل نے کہا ” یہ درست ہے کہ ہم معمول کے مطابق دنیا بھر میں متعلقہ تمام لوگوں سے جن میں پاکستان کے عہدیدار بھی شامل ہیں، آزادئ صحافت کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کرتے رہتے ہیں اور زور دیتے ہیں کہ آزاد پریس اور معلومات کے حامل شہری کسی بھی ملک اور اس کے جمہوری مستقبل کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔”

واضح رہے کہ پاکستان الیکٹرانک میڈیاریگولیٹری اتھارٹی سے متعلق یہ نیا بل ڈس انفارمیشن کی نئی تعریف سے متعلق ہے اور اس بل پر پاکستان کے انسانی حقوق کمشن نے بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔

پیمرا کا نیا بل ہے کیا؟

انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کی ویب سائٹ کے مطابق آئی ایف جے اور اس سے منسلک پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس پی ایف یو جے نے اس بل کے بارے میں شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بل میڈیا ملازمین کے موجودہ لیبر قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے اور اس میں ‘مس انفارمیشن ‘اور’ ڈس انفارمیشن ‘کی جو تعریف بیان کی گئی ہے وہ باعثِ تشویش اور خطرناک ہے۔

پاکستان کی وزیرِ اطلاعات و نشریات مریم اورنگ زیب نے یہ بل بائیس جولائی کو پاکستان کی پارلیمنٹ میں پیش کرتے ہوئے پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی پیمرا میں ، تبدیلیوں کی سفارش کی تھی اور کہا تھا کہ اس کی نو شقوں میں ترمیم کی جائے گی اور پانچ نئے سیکشنز کا اس میں اضافہ کیا جائے گا۔واضح رہے کہ پاکستان الیکٹرانک ریگولیٹری اتھارٹی یعنی پیمرا کا آغازسال 2002 میں ہوا تھا۔

آئی ایف یو جے کی ویب سائٹ کے مطابق بائیس جولائی کو ایک گفتگو میں مریم اورنگ زیب نے کہا تھا کہ پیمرا قوانین میں ترامیم ڈیجیٹل میڈیا کے صحافیوں سمیت تمام صحافیوں کے حقوق کے تحفظ اور صحافی تنظیموں کی نمائندگی کے لیے کی جارہی ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ مجوزہ بل میڈیا کے متعدد “سٹیک ہولڈرز “کے ساتھ صلاح مشورے کے بعد تیار کیا گیا ہے۔

پاکستان میں احمدیہ اقلیت پر محکمہ خارجہ کا موقف

پاکستان میں احمدیہ اقلیت کے بارے میں وائس آف امریکہ کے ایک سوال پر کہ ایک روز قبل ایک مذہبی جماعت، تحریکِ لبیک پاکستان نے ان کی ایک عبادتگاہ میں توڑ پھوڑ کی اوریہ کہ یہ محض ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ ایسے کم از کم گیارہ واقعات ہو چکے ہیں تو کیا آپ ان کی مذمت کرتے ہیں ؟

ترجمان پٹیل نے کہا،” کسی بھی گروپ کے خلاف تشدد کی ہم مذمت کرتے ہیں اور اس مسئلے پر ہم دنیا بھر کے ممالک سے بات کرتے ہیں کہ ہمیں تمام گروپوں کے بنیادی انسانی حقوق کا احترام کرنا چاہئیے۔”

اس سوال پر کہ کیا وزیرِ خارجہ بلنکن نے پیر کے روز اپنے پاکستانی ہم منصب بلاول بھٹو سے فون پر گفتگو میں یہ مسئلہ اٹھایا؟ ویدانت پٹیل نے ایک مرتبہ پھر اپنی بات کا اعادہ کیا۔

انہوں نے کہا، “میں یہی کہوں گا کہ ہم انسانی حقوق کا مسئلہ دنیا بھر کے ممالک کے عہدیداروں کے سامنے اٹھاتے ہیں اور وزیرِ خارجہ بلنکن اس سے پہلے کہہ چکے ہیں کہ یہ بالکل واضح ہے کہ جب معاملہ انسانی حقوق کا ہو تو امریکہ ان کی حمایت کرتا ہے اور اس پر ہمیشہ گفتگو کرتا ہے۔”

کوئٹہ میں داعش کے حملے کے پانچ سال

اس سے پہلے منگل کے روز ہی امریکی محکمہ خارجہ میں جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے بیورو ایس سی اے نے ٹویٹر پر ایک پیغام میں پانچ سال قبل کوئٹہ میں داعش کے ایک حملے کی برسی کے موقعے پر افسوس کا اظہار کیا۔

ٹویٹ میں کہا گیا، “کوئٹہ کے ایک پولنگ اسٹیشن پر داعش کے ہولناک حملے کے پانچ سال پورے ہونے پر ہم، ہلاک ہونے والوں کے لیے پاکستان کے عوام کے دکھ میں شریک ہیں۔ تحفظ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا مرکزی نکتہ ہے اور ہم پاکستان میں بنیادی جمہوری اصولوں کے پر امن طور پر برقرار رہنے کی حمایت کرتے ہیں۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں