بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں تین دہائیوں کی پابندی کے بعد محرم کے جلوس میں ہزاروں افراد کی شرکت

سرینگر (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی پی اے) جمعرات کو پولیس افسران اور انتظامیہ سخت سکیورٹی میں نکالے گئے جلوس میں شامل سوگواروں کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ مودی حکومت کشمیر کی خصوصی آئینی حثیت ختم کرنے کے بعد سے یہاں سکیورٹی میں بہتری ثابت کرنے کے لیے بے تاب ہے۔

بھارتی زیر انتظام کشمیر میں عشروں کی پابندی کے بعد پہلی مرتبہ ہزاروں شیعہ مسلمانوں نے جمعرات کو محرم کا ماتمی جلوس نکالا۔ اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ محرم، دنیا بھر میں شیعوں کے لیے مقدس ترین ہے۔ اس مہینے میں ساتویں صدی میں پیغمبر اسلام کے نواسے حضرت حسینؑ کی شہادت کی یاد میں بڑے پیمانے پر مجالس عزا منعقد کی جاتی ہیں اور ماتمی جلوس نکالے جاتے ہیں۔

لیکن بھارتی حکام نے 1990 میں کشمیر میں نئی دہلی کے خلاف مسلح بغاوت شروع ہونے کے بعد وہاں محرم کے دوران جلوس پر پابندی عائد کر دی تھی۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی جانب سے چار سال قبل کشمیر کے خطے پر براہ راست حکمرانی مسلط کرنے کے بعد سے اس علاقے میں بہتر سکیورٹی کا اظہار کرنے کے لیے بے چین ہے۔

‘امن کا فائدہ‘

جمعرات کو اعلیٰ پولیس افسران اور انتظامیہ جلوس میں شامل سوگواروں کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ جلوس کے شرکا سینہ کوبی کرتے اور علم لہراتے ہوئے سری نگر کی سڑکوں پر مارچ کیا۔ اس مارچ کی اجازت دینے کے لیے عہدیداروں اور مقامی شیعہ علما کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوئے۔

جلوس کےپر امن اختتام کے بعد شہر کے منتظم اعلیٰ محمد اعزاز نے صحافیوں کو بتایا، ”یہ امن کا ایک فائدہ ہے۔‘‘

مشروط اجازت

1990ءکی پابندی کے بعد سے کشمیر میں محرم کے کچھ چھوٹے جلوسوں کی اجازت دی گئی لیکن اکثر یہ جلوس پرتشدد طریقے سے ختم ہوتے تھے۔ اس کی وجہ سوگواروں کی طرف سےبھارت سے آزادی کے مطالبوں پر مبنی نعرے ہوتے تھے، جن کے جواب میں سرکاری فورسز آنسو گیس اور پیلٹ گن فائر کے ذریعے ہجوم کو منتشر کر دیتیں۔

سنی اکثریت والے کشمیر میں شیعہ ایک اقلیت ہیں لیکن حکام کا خیال ہے کہ وہ خطے کی تقریباً 14 ملین آبادی کا کم از کم 10 فیصد ہیں۔ اس سال کا جلوس ایک نسل میں اب تک کا سب سے بڑا جلوس تھا اور بہت سے لوگوں نے پہلی بار اس میں شرکت کی۔

حکام نے اس شرط پر جلوس کی اجازت دی کہ ماتمی افراد ‘ملک مخالف نعرے یا پروپیگنڈا‘ کا استعمال نہیں کریں گے یا باغی گروپوں اور’کالعدم تنظیموں‘ کا کوئی حوالہ نہیں دیں گے۔

کشمیر میں 1989ء میں بھارتی حکمرانی کے خلاف شورش شروع ہونے کے بعد سے اب تک دسیوں ہزار شہری، فوجی اور باغی مارے جا چکے ہیں۔ باغی گروپ آزادی یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کرتے ہیں۔ کشمیر کا ایک حصہ پاکستان کے کنٹرول میں بھی ہے۔ بھارت نے اپنے زیر کنٹرول کشمیر کے کم از کم نصف حصے میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے وہاں مستقل طور پر لاکھوں فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔

مودی حکومت نے 2019 ء میں اس علاقے کی خصوصی آئینی حیثیت کو منسوخ کرتے ہوئے اسے انتظامی طور پر اسے بھارت کا حصہ قرار دیا تھا۔ اس کے بعد سے بھارتی سیاح اس خطے میں آنے لگے ہیں۔ کئی دہائیوں کی بندش کے گزشتہ سال سری نگر میں سنیما ہال گزشتہ سال دوبارہ کھلے اور مئی میں شہر نے ستمبر میں ہونے والے جی 20 اجلاس سے پہلے ایک اجلاس کی میزبانی کی۔

لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ حکام نے صحافیوں، عوامی احتجاج اور مذہبی عبادت پر جاری پابندیوں کے ساتھ بدامنی پر قابو پانے میں شہری آزادیوں کو ڈرامائی طور پر کم کر دیا ہے۔ خطے کے سب سے بڑے مذہبی عالم 2019ء سے گھر میں نظر بند ہیں اور سری نگر کی مرکزی مسجد میں نماز جماعت کے سائز پر پابندیوں کے ساتھ مشروط ہے۔

جمعرات کے جلوس کے منتظمین میں سے ایک شیعہ رہنما منصور عباس انصاری نے حراست میں لیے گئے مذہبی رہنماؤں کی رہائی اور دعائیہ اجتماعات پر پابندی ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا، ”حکومت کے امن کے دعوے تبھی درست ثابت ہوں گے۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں