نائیجر میں فوجی بغاوت، صدر بازوم کا تختہ الٹ دیا گیا، کرفیو نافذ

نیامی (ڈیلی اردو/رائٹرز/اے ایف پی) نائیجر میں فوجیوں کے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ صدر محمد بازوم کو اقتدار سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ “اگلی اطلاع تک” ملک کی سرحدوں کو بند اور کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔

خبر رساں ایجنسیاں اے ایف پی اور روئٹرز نے نائیجر کے قومی ٹیلی ویژن پر فوجیوں کے ایک گروپ کی طرف سے دیے گئے بیان کی بنیاد پر بتایا کہ ملکی صدر محمد بازوم کو اقتدار سے برطرف کر دیا گیا ہے۔

کرنل میجر احمدو عبدالرحمان نے فوجی لباس میں ملبوس دیگر نو فوجیوں کے ساتھ خطاب کرتے ہوئے کہا، “ہم، دفاعی اور سکیورٹی فورسزنے صدر بازوم کی حکومت کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ملک کے آئین کو تحلیل کر دیا ہے۔”

فوجیوں نے ایک بیان پڑھتے ہوئے کہا، “ملک کی سرحدیں بند کردی گئی ہیں اور ملکی سطح پر کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔”

نائیجر کے صدارتی دفتر نے فوجیوں کے اقدام کو ریاست کے خلاف بغاوت قرار دیا ہے۔ اس سے قبل بدھ کو اس گروپ نے نائیجر کے دارالحکومت نیامی میں صدارتی محل کو بند کر دیا تھا۔

صدر بازوم کے دفتر سے سرکاری اور غیر سرکاری طورپر کیے گئے تبصروں کے مطابق صدارتی محافظوں کا ایک دستہ بازوم کو رہائش گاہ کے اندر حراست میں لینے کی کوشش کر رہا تھا۔

میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ صدر بازوم صدارتی محافظ دستے کے کمانڈر جنرل عمر کو ہٹانا چاہتے تھے، لیکن جنرل کو ہٹانے پر فوج نے صدر سے استعفیٰ مانگ لیا، تاہم صدر بازوم نے استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا تھا۔

ہمیں اب تک کیا معلوم ہے؟

صدارتی دفتر کے سکیورٹی ذرائع نے متعدد خبر رساں ایجنسیوں سے بات چیت کی ہے۔ ان میں سے ایک نے اے ایف پی کو بتایا کہ ایلیٹ فوجی دستے کو “غصے کی حالت” کا سامنا کرنا پڑا اور صورت حال کو نرم کرنے کے لیے بات چیت جاری ہے۔

نائیجر کے صدارتی دفتر نے دو ٹوئٹس کیے لیکن اس کے فوراً بعد ان میں سے ایک کو حذف کردیا گیا۔ دوسری ٹوئٹ میں کہا گیا کہ صدارتی محافظوں میں سے ایک گروپ نے بغاوت کردی ہے لیکن مسلح افواج کا بڑا حصہ وفادار رہا۔

ٹوئٹ میں مزید کہا گیا ہے، “جمہوریہ کے صدر اور ان کا خاندان بعافیت ہیں۔ اگر غصے سے مغلوب بغاوت میں شامل صدارتی محافظوں کا دستہ بہتر جذبات کے ساتھ واپس نہیں لوٹتا ہے تو فوج اور نیشنل گارڈ ان پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔”

نیامی میں اے ایف پی کے ایک نامہ نگار نے اطلاع دی ہے کہ بدھ کو صدارتی کمپلیکس کے ارد گرد کے علاقے کو سیل کر دیا گیا تھا، لیکن ساتھ ہی اس علاقے میں فوجی سرگرمیوں یا فائرنگ کی آوازوں کی کوئی غیر معمولی علامت بھی نہیں ملی۔ ٹریفک بھی معمول کے مطابق دکھائی دیا۔

افریقی ملکوں کی اپیل

مغربی افریقی ملکوں کے گروپ ECOWAS، جس کی صدارت اس وقت نائیجیریا کررہا ہے، نے ایک بیان میں کہا کہ “بغاوت کی کوشش” کی اس خبر پر اسے “صدمہ اور تشویش” ہے۔

نائجیریا کے صدر بولا ٹینوبو کے دستخط سے جاری بیان میں کہا گیا ہے، ECOWAS طاقت کے ذریعہ اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہے اور بغاوت کی سازش کرنے والوں سے جمہوری طورپر منتخب صدر کو فوری اور غیر مشروط آزاد کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔”

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ECOWAS اور بین الاقوامی برادری اس سازش میں ملوث تمام افراد کو صدر، ان کے خاندان، حکومت کے ارکان اور عام لوگوں کی سلامتی اور حفاظت کی ذمہ داری قرار دے گی۔”

عالمی رہنماوں نے بغاوت کی مذمت کی

امریکہ نے بغاوت کی مذمت کی ہے اور بازوم کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بازوم کے لیے حمایت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بازوم سے اس وقت بات کی تھی جب ان کے محکمے نے بتایا کہ”وہ نائیجر میں ہونے والی پیش رفت پر سخت فکر مند ہے۔”

بلنکن نے ٹوئٹر پر پیغام میں کہا،”امریکہ نائیجر کے آئینی نظام کو طاقت کے ذریعہ پامال کرنے کی کوششوں کی مذمت کرتا ہے اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہماری شراکت داری جمہوری طرز حکمرانی کے تسلسل پر منحصر ہے۔”

یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار جوسیپ بوریل نے فرانسیسی زبان میں لکھا، “وہ نیامی میں جاری واقعات سے بہت پریشان ہیں۔”

انہوں نے کہا، “یورپی یونین جمہوریت کو غیر مستحکم کرنے اور نائیجر کے استحکام کو خطرے میں ڈالنے کی تمام کوششوں کی مذمت کرتی ہے۔”

جرمنی کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بدھ کے روز پریس بریفنگ کے دوران بتایا کہ “صورت حال ابھی تک بہت غیر واضح ہے۔”

انہوں نے کہا کہ “ہم وہاں اپنے سفارت خانے اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور اگر ضروری ہوا تو ہم یقینا مناسب اقدامات بھی کریں گے۔”

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیریش نے “طاقت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرنے اور جمہوری طرز حکمرانی، امن اور استحکام کو نقصان پہنچانے کی کسی بھی کوشش” کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی۔

انہوں نے تمام فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے اور آئینی نظم کے تحفظ کو یقینی بنانے کی بھی اپیل کی۔

بغاوت کی کوششیں پہلے بھی ہو چکی ہیں

نائیجر اور اس کے اطراف کے ملکوں میں بغاوت ایک عام بات ہے۔

نائیجر کے اطراف کے علاقے حالیہ برسوں کے دوران غیر مستحکم رہے ہیں۔ پڑوسی ملکوں مالی اور برکینا فاسو میں سن 2020 سے متعدد بغاوتیں ہو چکی ہیں۔

نائیجر میں بھی سن2021 میں بغاوت کی ناکام کوشش ہوچکی ہے جب صدر بازوم کو حلف لینے سے روکنے کے لیے دو دن پہلے کوشش کی گئی تھی۔

یہ تینوں ممالک اپنے مشترکہ سرحدی علاقے میں شدت پسند اسلامی گروپوں کی سرگرمیوں کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ لڑائی نائیجر کے دارالحکومت نیامی سے بہت زیادہ دور نہیں ہے۔

نائیجر پڑوسی ملک نائجیریا کی سرحد سے ملحق جنوب مشرقی علاقوں میں بھی عسکریت پسندوں سے جنگ لڑ رہا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں