رواں برس سات ماہ کے دوران یورپ پہنچنے کی کوشش میں 900 تارکین وطن ہلاک ہوئے، تیونس

تیونس سٹی (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) تیونس کی حکومت نے کہا ہے کہ اس سال کے ابتدائی سات ماہ میں اس کے ساحل کے قریب اب تک 900 سے زیادہ تارکین وطن کشتیوں کے ذریعے یورپ پہنچنے کی کوشش میں ڈوب چکے ہیں۔

اقوام متحدہ نے مزید المناک صورتحال سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اسے تیونس میں پھنسے ان سینکڑوں تارکین وطن کی حفاظت کے بارے میں سخت تشویش ہے جنہیں ملک کے دور دراز حصوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔

تیونس کی وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ بحیرہ روم میں پیش آنے والے بحری حادثات کے بعد 20 جولائی تک 901 لاشیں باز یاب کی جا چکی ہیں۔

تیونس ان تارکین وطن اور پناہ کے متلاشیوں کے لئے ایک بڑی گزر گاہ بن گیا ہے جو یور پ میں ایک بہتر زندگی کی امید میں گاہے گاہے اکثر کمزور کشتیوں پر سوا ر ہو کر خطرناک سمندری سفر کی کوشش کرتے ہیں۔

تیونس کے شہر سفیکس اور اٹلی کے جزیرے لمپا ڈوسا کے درمیان صرف 130 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔

تیونس کی نیشنل گارڈ کے ترجمان حسام الدین جبالی نے بتایا کہ جون کے آخر تک تقریباً 800 تارکین وطن ہلاک ہو چکے تھے اور یہ کہ 34 ہزار سے زیادہ کو راستے میں پکڑا اور زندہ بچایا گیا تھا جن میں سے بیشتر کا تعلق سب صحارا افریقہ کے ملکوں سے تھا۔

کوسٹ گارڈ 1300 سے زیادہ کارروائیاں کر چکے ہیں ۔ یہ گزشتہ سال اسی عرصے کے دوران کےمشنز سے دوگنا زیادہ تعداد ہے۔

تیونس کی وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ اس سال اب تک انسانی اسمگلنگ کے دھندے میں ملوث 550 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

ادھر اطالوی حکومت نے کہا ہے کہ اس سال اب تک 80 ہزار سے زیادہ لوگ بحیرہ روم کو عبورکر کے اس کے ساحلوں تک پہنچ چکے ہیں ۔ ان میں سے بیشتر کاتعلق تیونس اور جنگ سے متاثرہ ملک لیبیا سے ہے۔

اقوام متحدہ کے مائیگریشن سے متعلق بین الاقوامی ادارے آئی او ایم کے مطابق وسطی بحیرہ روم تارکین وطن کے لئے دنیا کا سب سے خطرناک راستہ بن چکا ہے ۔ اس راستے پر 2014 سے اب تک 20 ہزار سے زیادہ تارکین وطن اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

اب جب کہ تیونس تارکین وطن کے لئے ایک بڑی گزر گاہ بن چکا ہے، بارہ ملین یعنی ایک کروڑ بیس لاکھ آبادی کے اس ملک میں کشید گی اور تشدد میں اضافہ ہو چکا ہے جب کہ وہ شدید اقتصادی بحران کا سامنا کر رہاہے۔

مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے بھی تیونس کے لوگ اپنے ملک سے باہر جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

نسلی تعصب پر مبنی حملوں میں اکثر افریقی تارکین وطن اور طالبعلموں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

تیونس کے صدر سعید قیس نے الزام لگایا ہے کہ سب صحارا کے تارکین وطن کے گینگ جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں اور بیشتر عرب آبادی کے اس ملک میں نسلی تناسب تبدیل کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔

اس ماہ کے شروع میں سفیکس میں نسلی تشدد کے متعدد واقعات دیکھنے میں آئے۔ بعد میں حکام نے سینکڑوں تارکین وطن کو بسوں میں بٹھا کر الجزائر اور لیبیا کے قریب دور افتادہ صحرائی علاقوں میں لے جا کر بے یار و مدد گار چھوڑ دیا تھا۔

اقوام متحدہ نے جمعرات کو کہا کہ سرحدوں کے قریب تارکین وطن اور پناہ کے متلاشی انتہائی پریشان کن حالات میں پھنس کر رہ گئے ہیں جب کہ کچھ کو سرحدوں کے پار دھکیل دیا گیا ہے۔ یہ سب ایک ایسے المیے کا شکار ہو رہے ہیں جو ابھی پوری طرح سامنے نہیں آیا۔

آئی او ایم اور، اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں سے متعلق ادارے یو این ایچ سی آر نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ پھنسےہوئے لوگوں میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔ خواتین میں کچھ حاملہ بھی ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ صحرا میں شدید گرمی میں پھنس کر رہ گئے ہیں، جب کہ نہ تو ان کے پاس کوئی پناہ گاہ ہے اور نہ ہی خوراک اور پانی دستیاب ہے ۔انہیں ہنگامی طور پر انسانی ہمدردی کی امداد کی فوری ضرورت ہے۔

یورپی یونین نے اس ماہ تیونس کو اپنے غیر قانونی تارکین وطن کو روکنے اور ہزاروں تارکین وطن کو ان کےآبائی ملکوں میں واپس بھیجنے میں مدد کےلیے 105 ملین یوروز کی پیش کش کی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں