جڑانوالہ میں مسیحی آبادیوں پر حملہ: 19 گرجا گھر اور 86 مکانات جلائے گئے، رپورٹ

لاہور (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر جڑانوالہ میں مسیحی آبادی پر حملوں اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات کی تحقیقات جاری ہیں اور ان واقعات میں ہونے والے نقصانات کے بارے میں پیش کی جانے والی سرکاری رپورٹ کے مطابق جڑانوالہ اور اس کے گردونواح میں مشتعل ہجوم نے 19 گرجا گھروں اور مسیحی عبادت گاہوں کے علاوہ 86 مکانات کو آگ لگائی اور ان میں توڑ پھوڑ کی۔

جلاؤ گھیراؤ کا یہ واقعہ بدھ کو پیش آیا تھا جب قرآن اور پیغمبرِ اسلام کی توہین کے الزامات سامنے آنے کے بعد ہجوم نے جڑانوالہ کے مختلف علاقوں میں مسیحی آبادیوں کو نشانہ بنایا تھا۔

جمعے کو پیش کی جانے والی رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ نقصان عیسیٰ نگری کے علاقے میں ہوا جہاں 40 مکانات اور تین چرچ جلائے گئے جبکہ محلہ چمڑہ منڈی میں بھی دو چرچ اور 29 مکانات نذرِ آتش کیے گئے۔

جمعے کو ہی سپریم کورٹ میں بھی ایک درخواست دائر کی گئی ہے جس میں چیف جسٹس سے جڑانوالہ میں پیش آنے والے واقعے پر ازخود نوٹس لینے کی استدعا کی گئی ہے۔

یہ متفرق درخواست اقلیتوں کے حقوق سے متعلق مقدمے میں دائر کی گئی اور اس میں کہا گیا ہے کہ اقلیتی برادری پر حملوں کی تحقیقات کا حکم دیا جائے اور ذمہ داروں کا تعین کرکے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔

اب تک پولیس نے سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچانے اور کار سرکار میں مداخلت جیسی دفعات کے تحت متعدد مقدمات درج کر کے 128 ملزمان کو گرفتار کیا ہے جبکہ نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے جمعرات کی شب ایک بیان میں کہا ہے کہ جڑانوالہ میں پیش آنے والے واقعے سے جڑے دو مرکزی ملزمان کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے اور وہ فی الحال سی ٹی ڈی کی تحویل میں ہیں۔

ٹوئٹر پر پیغام میں انھوں نے ’ریکارڈ وقت میں گرفتاریوں‘ پر پنجاب کے چیف سیکریٹری اور پولیس سربراہ کی کوششوں کو سراہا جبکہ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کا بھی شکریہ ادا کیا ہے۔

جڑانوالہ میں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ پر تھانہ سٹی جڑانوالہ میں درج مقدمے میں انسداد دہشتگردی ایکٹ اور پنجاب ساؤنڈ سسٹم ایکٹ کی دفعات شامل کی گئی ہیں اور اس میں کہا گیا ہے کہ 500 سے 600 مشتعل مظاہرین نے مسیحی برداری کے گھروں اور گرجا گھروں میں داخل ہو کر توڑ پھوڑ کی۔

اس مقدمے کے مطابق آٹھ لوگوں نے لوگوں کو اشتعال دلایا اور مظاہرے کی قیادت کی جن میں سے دو کا تعلق مذہبی گروہ جماعت اہل سنت اور تحریک لبیک پاکستان سے ہے۔

پاکستان علما کونسل نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت مسیحی برادری کے نقصان کا ازالہ کرے جبکہ جمعرات کو ایک اجلاس کے دوران محسن نقوی کا کہنا تھا کہ جڑانوالہ میں سرکاری عمارتوں اور مسیحی برادری کی املاک کی بحالی کے اخراجات حکومت برداشت کرے گی اور اس میں اگلے تین سے چار روز لگیں گے۔

محسن نقوی نے کہا کہ ’مسلم سکالرز سے گزارش ہے کہ طویل مدتی پلان بنانا ہوگا جس میں لوگوں کو بتانا ہوگا کہ ہمارا دین کیا کہتا ہے۔ ہم بطور پاکستانی ایک ہیں، ہر قسم کی سازش کو ناکام بنائیں گے۔‘ انھوں نے زور دیا کہ ’ان واقعات کی مذہب میں کوئی گنجائش نہیں۔‘

عبادت گاہوں کو نقصان پہنچنے پر ’دہشتگردی کی دفعات کے تحت‘ مقدمات درج

ترجمان سٹی پولیس فیصل آباد نوید احمد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جڑانوالہ ڈویژن میں ’دہشتگردی اور جلاؤ گھراؤ کی دفعات سمیت مختلف مذہبی عبادت گاہوں کی توہین کی دفعات میں پانچ مقدمات درج کر کے 128 ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا۔‘

انھوں نے کہا کہ پولیس کی اولین ترجیح ہے کہ امام بارگاہ اور چرچ کی سکیورٹی کو یقینی بنایا جائے۔

ادھر پنجاب حکومت نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی کی تشکیل کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ واقعہ پاکستان میں امن کی فضا کا خراب کرنے کی ’منظم سازش‘ تھا جس میں ملوث افراد کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۔

انسپیکٹر جنرل پولیس پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے بی بی سی کی آسیہ انصر کو بتایا کہ مجموعی طور پر اس وقت شہر میں صورتحال پُرامن ہے اور جڑانوالہ میں رینجرز سمیت پولیس کے 3500 جوان امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول رکھنے کے لیے تعینات کیے گئے ہیں۔

آئی جی پنجاب نے جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ میں ملوث 128 ملزمان کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسیحی کمیونٹی کی حفاظت کے لیے تمام تر اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔

اس واقعے کے بعد بدھ کو رات گئے ضلع فیصل آباد میں آئندہ سات روز کے لیے دفعہ 144 کا نفاذ کر دیا گیا تھا جس کے تحت ہر قسم کے احتجاج اور جلسے جلسوں پر پابندی ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ ایک نوٹیفیکیشن کے مطابق تحصیل جڑانوالہ میں آج (جمعرات) تمام سرکاری اور پرائیوٹ ادارے بند رہیں گے۔

یاد رہے کہ بدھ کے صبح قرآن کی مبینہ بے حرمتی کے واقعے کے بعد مشتعل مظاہرین کی جانب سے مسیحی آبادی پر دھاوا بول کر متعدد گرجا گھروں کو نذرِ آتش کر دیا گیا تھا جبکہ کرسچین کالونی میں واقع مسیحی شہریوں کے گھروں کے علاوہ سرکاری عمارتوں میں توڑ پھوڑ بھی کی گئی تھی۔

حکومت پنجاب کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق قرآن کی مبینہ بے حرمتی کی خبریں سامنے آنے کے بعد جڑانوالہ کے مختلف مقامات پر پانچ سے چھ ہزار افراد پر مشتمل بڑا ہجوم شہر کے مختلف مقامات پر جمع ہوا اور انھوں نے مسیحی برادری کے مختلف علاقوں اور عمارتوں پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔

دوسری جانب امریکہ کے محکمہ خارجہ کے ترجمان ودانت پٹیل نے ایک بریفنگ کے دوران مسیحی آبادی پر حملے کے تناظر میں بیان جاری کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’ہمیں اس بات پر شدید تشویش ہے کہ پاکستان میں قرآن کی مبینہ بے حرمتی کے ردِ عمل میں گرجا گھروں اور رہائشی علاقوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ہم پرامن انداز میں اظہار آزادی رائے کی حمایت کرتے ہیں اور لوگوں کو اپنے مذہب اور عقیدے پر عمل کرنے کے حق کی بھی حمایت کرتے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’تشدد یا تشدد کی دھمکی دینا کبھی بھی اظہار کا قابلِ قبول طریقہ کار نہیں ہے اور ہم پاکستانی حکام سے اس بارے میں تفصیلی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور جو افراد بھی ملوث ہیں انھیں پرامن رہنے کی تلقین کی جائے۔‘

اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئی ویڈیوز میں مظاہرین کو مسیحی املاک میں توڑ پھوڑ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے اور اس دوران پولیس صرف خاموش تماشائی بنی دکھائی دیتی ہے۔

ضلعی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ احتجاج کا یہ سلسلہ بدھ کی صبح اُس وقت شروع ہوا جب عیسیٰ نگری نامی علاقے میں چند نوجوانوں کی جانب سے قرآن کے اوراق کی مبینہ بےحرمتی کی اطلاعات شہر اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگیں جس کے نتیجے میں صبح نو بجے کے قریب مشتعل افراد سنیما چوک کے پاس اکٹھے ہونے لگے۔

بی بی سی کی حمیرا کنول کے مطابق اہلکار کا کہنا ہے کہ اس مشتعل ہجوم نے متعدد گرجا گھر تباہ کیے اور مسحیوں کے گھروں اور املاک میں شدید توڑ پھوڑ کی۔

جڑانوالہ ایک چھوٹا شہر سا ہے جہاں مسیحی آبادی کی تعداد مجموعی آبادی کے پانچ فیصد کے لگ بھگ ہے جن میں سے زیادہ تر لوگ عیسی نگری میں ہی آباد ہیں۔

اس واقعے کے بعد عہدے سے ہٹائے جانے والے اے سی جڑانوالہ شوکت مسیح نے بی بی سی کو فون پر بتایا کہ ‘صبح آٹھ سے نو بجے کے درمیان ہمیں مشتعل مظاہرین کی جانب سے عیسیٰ نگری میں احتجاج اور آگ لگائے جانے کی اطلاعات ملیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘مشتعل مظاہرین نے ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھا رکھے ہیں اور ایسے ہی ایک گروہ کی جانب سے اے سی جڑانوالہ کے دفتر پر بھی حملہ کیا گیا۔’

جڑانوالہ کے رہائشی 31 سالہ یاسر بھٹی ان افراد میں سے ایک تھے جنھیں اس صورتحال کے باعث اپنا گھر چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔

انھوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’انھوں (مظاہرین) نے کھڑکیاں اور دروازے توڑے، ہمارے فریج، صوفے، کرسیاں اور دیگر گھریلو سامان بھی لے گئے اور پھر اسے گرجا گھر کے سامنے لے جا کر جلا دیا گیا۔‘

’انھوں نے مقدس کتاب کی بیحرمتی کی، وہ انتہائی بے رحم تھے۔‘

واقعہ کیا پیش آیا؟

اس واقعے کے عینی شاہد اور جڑانوالہ کے مقامی صحافی حسام نے بی بی سی کے شہزاد ملک کو بتایا کہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب کرسچین کالونی میں عامر نامی نوجوان نے مبینہ طور پر چند توہین آمیز پمفلٹ لکھے اور مبینہ طور پر قران پاک کے چند اوراق کی بھی بےحرمتی کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘فجر کی نماز کے بعد اس واقعے کی اطلاع ملنے پر مشتعل افراد کی بڑی تعداد علاقے میں جمع ہو گئی اور توڑ پھوڑ شروع کر دی۔‘

حسان کے مطابق مظاہرین نے نہ صرف اس بستی میں موجود گرجا گھروں کو نذر آتش کیا بلکہ کالونی کے 15 مکانات کو بھی آگ لگا دی۔

انھوں نے بتایا کہ اس واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس نے کرسچین کالونی کے مکینوں کو یہ علاقہ خالی کرنے کو بھی کہا۔ صحافی کے مطابق بھاری نفری تعینات ہونے کے باجود پولیس مظاہرین کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی۔

جڑانوالہ کے تھانہ سٹی کے ایک اہلکار نے بھی تصدیق کی کہ مظاہرین کی جانب سے مسیحی بستی میں موجود کچھ گھروں کو آگ لگائے گئی ہے جبکہ وہاں لوٹ مار کرنے کی بھی اطلاعات ہیں۔

ایک عینی شاہد نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ شہر کے متاثرہ علاقوں میں کرسچین کالونی، ناصر کالونی، عیسیٰ نگری، مہاراوالا، چک نمبر 120 گ ب شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کے شہر کے وسط میں قائم کرسچین کالونی کی آبادی گھروں کو چھوڑ کر جا چکی ہے۔

جڑانوالہ کے گرجا گھروں کے انچارج فادر خالد مختار نے بی بی سی کے عماد خالق سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ مجموعی طور پر شہر میں چھ گرجا گھر جلائے گئے جبکہ ان کی اپنی رہائش گاہ ’پیرش پاسٹر ہاؤس‘ کو بھی نذر آتش کر دیا گیا ہے۔

فادر خالد مختار کے مطابق ’کرسچین کالونی میں سب سے زیادہ ہنگامہ آرائی ہوئی ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ کرسچین کالونی کا گرجا گھر نذر آتش کرنے کے بعد ایک گروہ نے ناصر کالونی میں واقع ان کی رہائش گاہ پیرش ہاؤس کا رخ کیا اور دو گھنٹے سے زیادہ وہ اس کے باہر جمع ہو کر احتجاج کرتے رہے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ خود بھی مشتعل ہجوم کے نرغے میں آ گئے تھے اور تقریباً دو گھنٹے سے زائد وقت تک اپنے اہلخانہ کے ہمراہ ناصر کالونی میں واقع گھر میں محصور رہنے کے بعد جان بچا کر نکلنے میں کامیاب ہوئے۔

فادر خالد مختار کے مطابق اس دوران انھوں نے متعدد مرتبہ پولیس کی ہیلپ لائن پر مدد کے لیے کال کی لیکن پولیس ان کی مدد کو نہیں آئی۔

ان کا دعویٰ ہے کہ اس دوران مشتعل ہجوم ایک دوسری بستی میں قائم گرجا گھر کو نذر آتش کرنے کا ارادہ لیے ان کے گھر سے دور ہوا جس کے فوراً بعد وہ وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوئے تاہم ان کے وہاں سے نکلنے کے بعد ہجوم نے پیرش پاسٹر ہاؤس کو بھی جلا دیا۔

مقدمے کی ایف آئی آر میں کیا کہا گیا ہے؟

جڑانوالہ پولیس کی جانب سے بدھ کو دو مسیحی نوجوانوں کے خلاف قرآن کی بےحرمتی اور توہینِ رسالت کے الزامات کے تحت مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے۔

مقدمے کی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ شکایت کنندہ جب موقع پر پہنچے تو انھیں وہاں سے قرآن کے اوراق ملے جن پر سرخ پنسل سے گستاخانہ الفاظ لکھے ہوئے تھے اور ایک کلینڈر بنایا ہوا تھا تاہم ملزمان موقع سے فرار ہو چکے تھے۔

فیصل آباد پولیس کی جانب سے بھی ٹوئٹر پر جاری پیغام میں جڑانوالہ کے شہریوں کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ ’قرآن پاک کی بےحرمتی کرنے والوں کے خلاف سٹی تھانہ جڑانوالہ میں مقدمہ درج ہو چکا ہے اس لیے مظاہرین اشتعال انگیزی اور توڑ پھوڑ سے گریز کریں‘۔

پولیس کے مطابق ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے بھی مارے گئے ہیں تاہم وہ فرار ہو چکے ہیں۔

یہ پاکستان میں پہلا موقع نہیں ہے کہ توہین مذہب کے مبینہ الزامات لگائے جانے کے بعد مسیحی برادری کی آبادیوں کو نشانہ بنایا گیا ہو۔

سنہ 2013 میں لاہور کے علاقے بادامی باغ میں واقع جوزف کالونی پر ایسے ہی ایک حملے اور آتشزنی کے نتیجے میں سینکڑوں مسیحی بے گھر ہو گئے تھے جبکہ علاقے میں امن و امان کا سنگین مسئلہ پیدا ہوا تھا۔

اس سے قبل اگست 2009 میں ضلع فیصل آباد کی ہی ایک اور تحصیل گوجرہ میں مسلم مسیحی فسادات کے نتیجے میں کم از کم چھ مسیحی ہلاک ہوئے تھے۔

گوجرہ کے ایک گاؤں میں یہ فسادات اس وقت شروع ہوئے تھے جب مسیحی برادری کی ایک شادی کے دوران مبینہ طور پر قرآن کی بے حرمتی کے الزام پر مشتعل ہو کر گاؤں کی مسلمان آبادی نے ایک مسیحی بستی پر دھاوا بول کر چالیس کے قریب مکانات کو آگ لگا دی تھی۔

پولیس ایکشن کیوں نہیں لیتی

خیال کیا جاتا ہے کہ ایسے واقعات کے بعد عموماً مذہبی تنظیموں کے ارکان بڑے پیمانے پہ مسجدوں کے لاؤڈ اسپیکرز استعمال کر کے لوگوں کو اشتعال دلاتے ہیں. جڑانوالہ کے واقعے میں بھی یہ دیکھنے میں آیا کہ ایک شخص دھڑلے سے لوگوں کے مذہبی جذبات کو ابھار رہا ہے اور ان کو حملے پر اکسا رہا ہے لیکن پولیس خاموش رہی۔

تاہم کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ تحریک لبیکپاکستان کی طرف سے ماضی میں پولیس والوں کے خلاف تشدد نے پولیس کا مورال کم کر دیا ہے. سینٹر فار سوشل جسٹس لاہور کے ایگزیکٹیو ڈائرکٹر اور سماجی کارکن پیٹرجیکب کا کہنا ہے کہ رینجرز اور آرمی کی تعیناتی وقتی طور پر سکیورٹی فراہم کر سکتی ہے لیکن بنیادی طور پر یہ پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس طرح کی سکیورٹی فراہم کرے.

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا, ”جڑانوالہ میں حالات اب بھی کشیدہ ہیں اور جو لوگ علاقہ چھوڑ کر گئے ہیں وہ واپس آنے کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ ان کو سکیورٹی کے حوالے سے خدشات لاحق ہیں. پولیس اس لیے غالباً اقدامات نہیں کر رہی کیونکہ ماضی میں جب اس نے انتہا پسند تنظیموں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی تو ان پر بے پناہ تشدد کیا گیا۔‘‘

’بھرپور تفتیش کی جائے‘

مائناریٹیزالائنس پاکستان کے چیئرمین اکمل بھٹی کا کہنا ہے کہ واقعے کے حوالے سے بہت ساری باتیں سامنے آ رہی ہیں۔ لٰہذا توہین رسالت اور توہین مذہب کے لگائے جانے والے ان الزامات کی بھرپور تفتیش ہونی چاہیے.‘‘ اکمل بھٹی نے مزید کہا، ”ہماری اطلاعات یہ ہیں کہ مرکزی ملزم راجہ عامر نے اپنے محلے کے ایک شخص یاسین کو چار لاکھ روپے دیے تھے جس کے عوض وہ باہر جانے کا بندوبست کروانا چاہتا تھا لیکن یاسین راجہ عامر کو باہر نہیں بھیجوا سکا اور جب راجہ نے پیسے کی واپسی کا مطالبہ کیا تو یاسین نے راجہ عامر پر یہ الزام لگوا دیا۔‘‘

اکمل بھٹی کے بقول کہا جا رہا ہے کہ ملزم نے قران کے اوراق پر چند جملے لکھے لیکن ”ملزم راجہ پڑھا لکھا نہیں ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کس طرح اس طرح جملے لکھ سکتا ہے۔‘‘

جڑانوالہ میں مسیحی اسسٹنٹ کمشنر کی تعیناتی

پاکستان مسیحی اتحاد کے صدر عمانوئیل اطہر جولیس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں کلیدی عہدے پر اگر کوئی غیر مسلم تعینات ہو جائے تو اسے معنی خیز سمجھا جاتا ہے۔

اُن کے بقول ایسے میں جڑانوالہ جیسی اہم تحصیل میں مسیحی اسسٹنٹ کمشنر شوکت مسیح کی تعیناتی پر مبینہ طور پر ایک مذہبی جماعت کے کچھ کارکنوں کو اعتراض تھا۔

انہوں نے کہا کہ مسیحی اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر میں توڑ پھوڑ ہوئی، مگر انہیں فوری عہدے سے ہٹا دیا گیا جو سراسر ناانصافی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ “ان مسیحیوں کا کیا قصور ہے جن کے گھروں میں توڑ پھوڑ کی گئی اور قیمتی سامان کو لوٹ لیا گیا، جوان مسیحی بچیاں اپنی جانیں اور عزتیں بچاتے ہوئے ننگے پاؤں ننگے سر گھروں سے باہر بھاگیں۔ ”

عمانوئیل نے مطالبہ کیا کہ جڑانوالہ کے واقعات کی جوڈیشل انکوائری کروائی جائے جس میں اقلیتوں کے مجاز نمائندگان بھی شامل ہوں۔

جڑانوالہ کا پاکستان کی بڑی تحصیلوں میں شمار ہوتا ہے جس کی آبادی 16 لاکھ نفوس سے تجاوز کر چکی ہے جس میں 97 فی صد مسلم آبادی ہے۔ مسیحیوں کی تعداد ڈھائی فی صد ہے جو کہ لگ بھگ 35 سے 40 ہزار نفوس بنتی ہے۔

جڑانوالہ کے مسیحی دیہی علاقوں میں رہتے ہیں جن کا ذریعہ معاش محنت مزدوری ہے۔ کئی مسیحی ہنرمند بھی ہیں جو فیصل آباد کی ٹیکسٹائل ملوں میں کام کرتے ہیں جب کہ کچھ سرکاری ملازمت بھی کرتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر واقعے کی شدید مذمت

جڑانوالہ میں مشتعل ہجوم کی جانب سے میسحی برادری کی عبادت گاہوں اور گھروں کو نشانہ بنانے سے متعلق سب سے پہلے بشپ چرچ آف پاکستان بشپ آزاد مارشل نے سوشل میڈیا پر ایک ٹویٹ کرتے ہوئے بتایا۔

انھوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’جب میں یہ لکھ رہا ہوں تو لفظ کم پڑ رہے ہیں۔ ہم، بشپ، پادری اور عام لوگ پاکستان کے ضلع فیصل آباد میں جڑانوالہ کے واقعے پر گہرے دکھ اور غم میں مبتلا ہیں۔ جب میں یہ پیغام لکھ رہا ہوں تو اس وقت چرچ کی عمارت کو جلایا جا رہا ہے۔ بائبل کی بے حرمتی کی گئی ہے اور مسیحیوں کو اذیتیں دی گئی ہیں اور ان پر قرآن پاک کی بے حرمتی کرنے کا جھوٹا الزام لگایا گیا ہے۔

ہم انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں سے فوری کارروائی کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ ہمیں یہ یقین دلایا جا سکے کہ ہمارے لوگوں کی جان و مال ہمارے ملک کے لیے قیمتی ہیں جس نے ابھی ابھی جشن آزادی منایا ہے۔‘

جس کے بعد سوشل میڈیا پر مشتعل ہجوم کی جانب سے جڑانوالہ میں مسیحی آبادی کے گھروں میں توڑ پھوڑ اور گرجا گھروں کو نذر آتش کرنے کا واقعے پر سیاستدانوں، صحافیوں سمیت تمام مکتوب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے مذمت کی ہے۔

پاکستان کے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے اس پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ سے سامنے آنے والے مناظر دیکھ کر میں پریشان ہوں۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں اور اقلیتوں کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں سے کہا گیا ہے کہ وہ مجرموں کو پکڑ کر انصاف کے کٹہرے میں لائے۔ یقین رکھیں کہ حکومت پاکستان برابری کی بنیاد پر ہمارے شہریوں کے ساتھ کھڑی ہے۔‘

اس واقعے پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شریں مزاری نے لکھا کہ ’ یہ انتہائی شرمناک اور قابل مذمت فعل ہے۔ ہماری مسیحی برادری اور ان کے گرجا گھروں کو بچانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے کہاں ہیں؟

محمد تقی نامی ایک صارف نے پاکستان میں بشپ چرچ آف پاکستان بشپ آزاد مارشل کی ٹویٹ کے جواب میں لکھا کہ ’محترم بشپ، فیصل آباد میں پاکستانی مسیحیوں اور گرجا گھروں کو نذر آتش کرنے کے واقعات پر ہمارے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔ ہم اس بے لگام، منظم تعصب اور نفرت سے تحفظ نہیں، صرف دکھ اور تسلی دے سکتے ہیں۔

صحافی ماریہ میمن نے اس واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ ’ریاست بار بار اپنے شہریوں کی توقعات پر پورا نہیں اتر رہی خاص طور پر کمزور اقلیتوں کے لیے اور اس میں بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔‘

ایکٹیوسٹ عمار علی جان نے لکھا کہ ’ہمیں افسوس ہے کہ آپ کو جبری طور پر اس اذیت کو برداشت کرنا پڑ رہی ہے۔ مذہبی تعصب کے خلاف احتجاج کا قومی دن ہونا چاہیے۔‘

جبکہ صحافی حامد میر نے بھی بشپ چرج آف پاکستان کی ٹویٹ پر ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ ’میں بھی رو رہا ہوں، گرجا گھر پر حملہ اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔‘

سابق سنیٹر افراسیاب خٹک نے بھی اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ قابل مذمت ہے۔ پاکستانی ریاست اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ مذہب کے نام پر ہونے والے جرائم کو استثنیٰ نے انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔‘

امریکہ اور یورپ کی مذمت

امریکہ کے محکمۂ خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں قرآن کی بے حرمتی پر گرجا گھر وں اور مسیحی کمیونیٹی کے گھر نذرِ آتش کیے جانے پر تشویش ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل کا پریس بریفنگ میں کہنا تھا کہ امریکہ سب کے لیے پر امن آزادیٴ اظہارِ رائے، عقائد اور مذہب کی آزادی کے حق کی حمایت کرتا ہے۔ ان کے بقول ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ ہمیں مذہب کی بنیاد پر شروع ہونے والے تشدد پر ہمیشہ تشویش رہی ہے۔

ترجمان نے پاکستانی حکام پر زور دیتے ہوئے کہاکہ قرآن کی بے حرمتی کے الزامات کی مکمل چھان بین کی جائے اور لوگوں کو پر امن رہنے کی تلقین کی جائے۔

یورپی یونین کی پاکستان میں سفیر رینا کیانکا کا سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہنا تھا کہ جڑانوالہ سے پریشان کن اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ امن عامہ کو برقرار رکھا جائے۔

1947 سے اب تک توہین مذہب کے الزام میں 100 کے قریب افراد قتل

گزشتہ ہفتے ضلع کیچ کے علاقے تربت میں لینگویج سینٹر سے منسلک ایک ٹیچر کو توہین مذہب کے الزام میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کردیا تھا۔

رواں سال فروری میں پیش آنے والے اسی طرح کے ایک واقعے میں ننکانہ صاحب میں ایک شخص کو توہین مذہب کے الزام میں قتل کردیا گیا تھا جہاں اس پر الزام تھا کہ اس نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی۔

سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (سی آر ایس ایس) نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ 1947 میں آزادی سے اب تک توہین مذہب کے ایک ہزار 415 الزامات عائد کیے گئے اور مقدمات میں 89 شہریوں کو قتل کیا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ 1947 سے 2021 تک توہین مذہب کے الزامات میں 18 خواتین اور 71 مردوں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا، اب تک 107 خواتین اور ایک ہزار 308 مردوں پر توہین مذہب کے الزامات لگائے گئے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سال 2011 سے 2021 کے دوران ایک ہزار 287 شہریوں پر توہین مذہب کے الزامات لگائے گئے اور محققین کا ماننا ہے کہ ’حقیقی تعداد اس سے بھی زیادہ ہوگی کیونکہ توہین مذہب کے تمام کیسز میڈیا پر رپورٹ نہیں کیے جاتے ہیں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ 70 فیصد سے زائد کیسز پنجاب میں رپورٹ ہوئے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ توہین مذہب کے قانون کا غلط استعمال عدالت نے غیر قانونی قرار دیا ہے، اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے قانون سازوں کو تجویز دی تھی کہ موجودہ قانون میں ترمیم کریں تاکہ ایسے افراد جو توہین مذہب کے غلط الزامات لگاتے ہیں انہیں یکساں سزا دی جائے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ توہین مذہب کے قوانین 1860 میں انگریزوں کے دور میں بنائے گئے تھے۔

ابتدائی طور پر 1927 میں تعزیرات ہند کے تحت توہین مذہب کے قوانین 295، 296، 297 اور 298 متعارف کروائے گئے، بعد ازاں مسلم کارپینٹر علم الدین کے کیس کے بعد شق 295 میں ایک اور ضمنی شق 295 اے شامل کی گئی۔

علم الدین نے توہین مذہب سے متعلق کتاب شائع کرنے پر مہاشے راجپال کو قتل کیا تھا۔

ابھی حال ہی میں سینیٹ نے ایک بل منظور کیا تھا جس میں قابل احترام و مقدس شخصیات کے خلاف توہین آمیز ریمارکس استعمال کرنے والوں کی سزا میں اضافہ کیا گیا ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان، ازواج مطہرات اور صحابہ کرام اور چاروں خلفائے راشدین کے بارے میں توہین آمیز الفاظ استعمال کرنے والوں کی سزا 3 سال سے بڑھا کر کم از کم 10 سال تک کردی گئی ہے۔

تاہم پیپلز پارٹی نے اس قانون پر تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ کسی بھی مذہب کی کسی بھی شکل میں توہین رسالت کو معاف نہیں کیا جا سکتا اور اسے سزا ملنی چاہیے، تاہم بل کے پس پردہ عزائم پر سوالیہ نشان ہے جس سے خدشہ ہے کہ ملک میں صرف فرقہ واریت اور عدم برداشت کو فروغ ملے گا۔

پنجاب میں مذہبی شدت پسندی میں اضافہ

پنجاب میں مذہبی بنیادوں پر تشدد کے واقعات اکثر سامنے آتے رہتے ہیں جن میں ملوث افراد زیادہ تر سزا سے بچ جاتے ہیں۔

سیالکوٹ میں تین دسمبر 2021 کو ایک سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کو توہینِ مذہب کا الزام لگا کر بے دردی سے قتل کردیا گیا۔

پریانتھا کمارا سیالکوٹ کی ایک فیکٹری میں بطور جنرل مینیجر کام کرتے تھے۔

ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل گوجرہ میں 31 جولائی 2009 کو سات مسیحیوں کو زندہ جلانے اور 60 گھروں کو لوٹ کر آگ لگانے کا افسوسناک واقعہ پیش آیا تھا۔

اس واقعے میں 17 نامزد اور 800 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا، لیکن متاثرین آج تک انصاف نہ ملنے کی شکایت کرتے ہیں۔

پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں جولائی 2014 کو توہینِ مذہب کے الزام میں احمدیوں کے پانچ گھروں کو نذرِ آتش کردیا گیا تھا جس کے باعث تین احمدی ہلاک ہو گئے تھے جن میں ایک 55 سالہ خاتون اور ان کی دو کمسن پوتیاں شامل تھیں۔

نومبر 2014 میں پنجاب کے شہر قصور کے علاقے کوٹ رادھا کشن میں مسیحی جوڑے شہزاد مسیح اور شمع کو بے دردی سے قتل کرکے لاشیں جلا دی گئی تھیں۔

لاہور کے علاقے جوزف کالونی میں سن 2013 میں توہینِ مذہب کے الزام پر مسیحی بستی جلائی گئی جس کے نتیجے میں سینکڑوں مسیحی افراد بے گھر ہو گئے تھے۔ اس واقعے میں ملوث 115 ملزمان کو ناکافی گواہوں اور عدم ثبوتوں کی بنا پر بری کر دیا گیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں