پاکستان: بلوچ عسکریت پسند تنظیموں سے چینیوں کو لاحق خطرات

اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) حکومت پاکستان جہاں ملک کے سنگین سیاسی اور معاشی مسائل سے نبردآزما ہے وہیں بلوچستان لبریشن آرمی کی جانب سے چینیوں کے خلاف جاری دھمکیوں نے بھی پریشانیاں بڑھا دی ہیں۔اس تنظیم نے چین کو اپنے تمام پروجیکٹس بند کرنے کو کہا ہے۔

بلوچ عسکریت پسند تنظیم نے یہ دھمکی 13 اگست کو گوادر میں چینی انجینیئروں کے ایک قافلے کو نشانہ بنانے کی اپنی کوشش کے بعد جاری کی ہے۔ گوکہ اس حملے میں کسی چینی کو نقصان نہیں پہنچا لیکن پاکستان میں چین کے سفارت خانے نے اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ اس نے حکومت سے اس کی تفصیلی جانچ کرانے اور قصورواروں کے خلاف سخت کارروائی کرنے اور ایسے موثر اور عملی اقدامات کا مطالبہ کیا جس سے آئندہ ایسے واقعات نہ ہو سکیں۔

اس حوالے سے چین نے دہشت گردی کے خطرات کا مشترکہ طور پر مقابلہ کرنے اور پاکستان میں چینی اہلکاروں، اداروں اور پروجیکٹوں کے تحفظ کے لیے اسلام آباد کے ساتھ مل کر کام جاری رکھنے کا اعلان بھی کیا۔

بلوچ لبریشن آرمی کی دھمکی کتنی سنگین ہے؟

بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی سرگرمیوں اور ماضی میں اس کی جانب سے کیے جانے والے حملوں پر قریبی نگاہ رکھنے والے ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس دھمکی کو نظر انداز کردینا مناسب نہیں ہو گا۔ ان کا کہنا ہے کہ بی ایل اے نے پاکستانی فوج کے خلاف بھی حملے کیے ہیں اس لیے اس کے خطرے کو معمولی سمجھ کر مسترد نہ کیا جائے۔

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سیاست دان اور سابق سنیٹر لشکری رئیسانی کا کہنا ہے کہ اگست میں صوبے میں متعدد حملے ہوئے۔ اگر بی ایل اے گوادر پورٹ کے علاقے میں داخل ہو سکتا ہے، جو کہ صوبے کا سب سے محفوظ حصہ ہے، تو پھر اس کی دھمکی کو غیر سنجیدہ انداز میں نہیں لینا چاہیے۔

صوبائی اسمبلی کی سابق رکن یاسمین لہری کا خیال ہے کہ اس تنظیم نے خواتین کو بھی بھرتی کیا ہے اور خودکش حملے بھی کیے ہیں، لہذا اس کا خطرہ سنگین ہے۔

چین مخالف تنظیموں کا ممکنہ اتحاد

چینیوں کو صرف بلوچ عسکریت پسند گروپوں کی مخالفت کا سامنا نہیں ہے بلکہ پاکستانی طالبان، داعش اور کچھ سندھی قوم پرست عسکریت پسند گروپ بھی چین کے شدید مخالف ہیں۔

پاکستان کی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ کے مطابق جولائی 2012 میں پاکستان کے شمالی علاقے داسو میں ہونے والا حملہ، جس میں نو چینی اور تین پاکستانی مارے گئے تھے، اسے ٹی ٹی پی کے سوات چیپٹر نے انجام دیا تھا۔

عسکریت پسندی کے امور کے ماہر احسان اللہ ٹیپو محسود کا خیال ہے کہ مختلف نظریات کے عسکریت پسند گروپ مشترکہ دشمنوں کو نشانہ بنانے کے لیے حملوں کو مربوط کرتے ہیں یا حکمت عملی کی سطح پر تعاون کرتے ہیں۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ طالبان اور بی ایل اے دونوں چینی اور پاکستانی فوج کے شدید مخالف ہیں۔ دونوں نے کمیونسٹ ملک کے شہریوں اور پاکستان کی مسلح افواج کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا ہے۔”اسے دیکھتے ہوئے اس بات کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ حکمت عملی کی سطح پر ایک دوسرے کا تعاون نہیں کریں گے۔ حالانکہ اب تک اس طرح کے تعاون کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے لیکن اگر انہوں نے تعاون کیا تو یہ چینیوں کے لیے بہت مہلک ثابت ہوگا۔”

کیا چین مخالف ممالک کا بھی اس میں ہاتھ ہے؟

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بلوچ عسکریت پسندوں کو بھارت اور امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔

کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ ڈاکٹر طلعت اے وزارت کا خیال ہے کہ چین مخالف بلوچ عسکریت پسندوں کو نئی دہلی اور واشنگٹن کی سرپرستی حاصل ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہ پاکستان اور چین اسٹریٹیجک پارٹنر ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اسلام آباد بیجنگ کو بحر ہند تک رسائی فراہم کرے گا اور اس وجہ سے بھی چین مخالف دو ریاستیں بلوچ عسکریت پسندوں کی حمایت کر رہی ہیں۔

ڈاکٹر طلعت کا کہنا تھا کہ، “پاکستان کے ذریعہ بھارتی جاسوس کلبھوشن سدھیر جادھو کی گرفتاری اس بات کا ناقابل تردید ثبوت ہے کہ نئی دہلی ان عسکریت پسندوں کی حمایت کر رہا ہے اور اس پر واشنگٹن کی خاموشی اس کی ملی بھگت کو ثابت کرتی ہے۔”

لندن میں مقیم پاکستانی سیکیورٹی تجزیہ کار میجر ریٹائرڈ عادل راجہ طلعت وزارت کے خیال سے اتفاق کرتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کا ایران کے علاقے چابہار میں نیٹ ورک ہے جہاں وہ بلوچ عسکریت پسندوں کو تربیت دے رہے ہیں۔

چین کی مخالفت کیوں ہو رہی ہے؟

صوبے کے بعض سیاستدانوں کا خیال ہے کہ چینی سرمایہ کاری سے مقامی لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ لہری کا کہنا تھا کہ اربوں ڈالر کی چینی سرمایہ کاری کے باوجود دیگر سہولیات تو چھوڑیں، گوادر توپانی کے لیے بھی ترس رہا ہے۔ پاکستان میں اسی صوبے میں سب سے زیادہ اموات یا بچوں کی سب سے زیادہ اموات ہوتی ہے۔ صوبے کا بنیادی ڈھانچہ تباہ حال ہے اور صحت اور تعلیم کو کوئی ترجیح نہیں دی جاتی۔ ”

وزارت کہتی ہیں کہ چینی سرمایہ کاری سے بلوچ لوگوں کو اسی وقت فائدہ ہوگا،”جب چینی سرمایہ کاری سے بلوچستان میں ترقی ہو اور اس کا سب سے پہلا فائدہ بلوچ لوگوں کو ملے۔”

گوادر میں مقیم ایک اورسیاست دان اور سابق پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے مشیر عبدالرحیم ظفر کا خیال ہے کہ اس سرمایہ کاری نے لوگوں کی پریشانیوں میں اضافہ کیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ چینیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے حکام نے مقامی لوگوں کی نقل و حرکت کی آزادی کو محدود کر دیا ہے۔ان کہنا تھا کہ شورش کے اس مسئلے سے سیاسی طور پر نمٹا جانا چاہیے۔

کیا چین اپنے پروجیکٹ بند کردے گا؟

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ حملوں اور دھمکیوں کے باوجود بیجنگ کام نہیں روکے گا۔ بلوچستان کے ایک سابق وزیر اعلیٰ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ چین منصوبے سے الگ نہیں ہوگا۔ ”یہ دو ریاستوں کا معاملہ ہے اور چند عسکریت پسند گروپ ابھرتی ہوئی سپر پاور کو ان منصوبوں پر کام روکنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔”

تاہم بلوچستان کے شہر تربت سے سینیٹر اکرم بلوچ نے سوال کیا کہ کیا حملوں کے خطرے کے درمیان سرمایہ کاری جاری رہ سکتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہاکہ سرمایہ کاری کو امن کی ضرورت ہوتی ہے اور اس طرح کے حملے خوف کی کیفیت پیدا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ خوف کی حالت میں کوئی بھی سرمایہ کاری کامیاب نہیں ہو سکتی۔

لیکن میجر ریٹائرڈ عادل راجہ طلعت کا خیال ہے کہ چینی اس طرح کے حملوں کے لیے ذہنی طور پر تیار ہیں۔ ”وہ جانتے ہیں کہ خطرات ہیں۔ ان کا نقصان ہوا لیکن وہ سی پیک منصوبوں کو ترک نہیں کریں گے۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں