سوڈان تنازعہ: خرطوم بازار پر ڈرون حملے میں 43 افراد ہلاک، 55 زخمی

خرطوم (ڈیلی اردو/رائٹرز/اے پی/اے ایف پی) فوج اور ایک نیم فوجی گروپ کے مابین اپریل میں تصادم کے آغاز کے بعد سے کسی ایک واقعے میں یہ سب سے بڑی ہلاکت ہے۔ اس واقعے میں چالیس سے زائد افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔

سوڈان میں فوج اور ایک نیم فوجی گروپ میں جاری جنگ کے درمیان دارالحکومت میں ایک فضائی حملے میں کم ازکم 43 افراد ہلاک ہو گئے۔ اپریل میں تصادم کے آغاز کے بعد سے کسی ایک واقعے میں ہلاکتوں کی یہ اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

سوڈان کے ڈاکٹروں کی یونین نے ایک بیان میں بتایا کہ اس واقعے میں 55 سے زائد دیگر افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ انہیں علاج کے لیے بشیر یونیورسٹی ہسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ طبی عملے اور امدادی کارکنوں نے بتایا کہ یہ ڈرون حملہ اتوار کے روز سوڈان کے دارالحکومت خرطوم کے ایک بازار میں ہوا۔

یہ حملہ ایک ایسے وقت پر ہوا، جب سرکاری فوجی دستوں اور نیم فوجی دستے ریپڈ سپورٹ فورس (آر ایس ایف) کے درمیان جاری جنگ کے پانچ ماہ مکمل ہونے والے ہیں۔

ہم حملے کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

فریقین نے ڈرون حملے کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ یہ حملہ ایسے علاقے پر ہوا ہے، جو بنیادی طورپر آر ایس ایف کے قبضے میں ہے۔

جنگ کے دوران دونوں فریق نے توپ خانے سے اندھادھند گولے بھی داغے ہیں اور فضائی حملے بھی کیے ہیں۔ گریٹر خرطوم اس وقت ایک بڑا میدان جنگ بنا ہوا ہے۔

بین الاقوامی طبی امدادی گروپ ‘ڈاکٹرز ودآوٹ بارڈرز’ (ایم ایس ایف)، جو جنوبی خرطوم میں بشیر یونیورسٹی ہسپتال کا نظم سنبھالتا ہے، نے سوشل میڈیا نیٹ ورک ایکس پر کہا کہ گورو مارکیٹ کو مقامی وقت کے مطابق صبح ساتھ بجے نشانہ بنایا گیا۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ تقریباﹰ 60 افراد زخمی ہیں اور 35 کے لگ بھگ پہلے ہی ہلاک ہوچکے ہیں۔

اس بیان کے پوسٹ ہونے کے بعد ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

سوڈان میں کیا تنازعہ ہے؟

سوڈان کے عملاً رہنما آرمی جنرل عبدالفتح برہان اور ان کے سابق نائب جنرل محمد حمدان دقلو، جو آر ایس ایف کے سربراہ بھی ہیں، کے درمیان جاری کشیدگی 15 اپریل کو ایک کھلی جنگ میں تبدیل ہو گئی۔ دونوں فریق ملک پر اپنا کنٹرول چاہتے ہیں۔

گرچہ لڑائی گریٹر خرطوم کے علاقے تک مرکوز رہی ہے، جس میں خرطوم، ام درمان اور بحری کے شہر شامل ہیں، لیکن مغربی دارفور کا علاقہ، جہاں سن 2000 کی دہائی کے اوائل میں نسل کشی ہوئی تھی، بھی حالیہ لڑائی کی زد میں آ گیا ہے۔

کئی ملکوں کی جانب سے ثالثی کی کوششیں جاری ہیں لیکن فی الحال کوئی بھی کوشش لڑائی کو ختم کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔

اقوام متحدہ کے اعدادو شمار کے مطابق اس تنازعے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد اگست میں 4000 سے زائد ہوچکی تھی۔ لیکن ڈاکٹروں اور امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے کے مطابق کم از کم 7.1 ملین افراد اندرون ملک بے گھر ہوچکے ہیں جب کہ مزید 1.1 لاکھ پناہ لینے کے لیے پڑوسی ملکوں میں جانے کے لیے مجبور ہو گئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں