طالبان نمائندوں سے مذاکرات میں روس کا افغانستان کی فنڈنگ جاری رکھنے کا اعلان

ماسکو (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) افغان طالبان کے نمائندے علاقائی خطرات کے موضوع پر روس کی میزبانی میں ہونے والے مذاکرات کے لیے روس کے شہر کازان میں ہیں۔ روس کے سرکاری خبر رساں ادارے تاس نے کہا ہے کہ جمعے کو ہونے والے مذاکرات میں افغانستان کےلیے کریملن کے سفیر ضمیر کابولوف نے شرکت کی۔

https://twitter.com/TalibanPRD__/status/1707800581207699494?t=smhGvhzL5hmUSMXfCDnWuA&s=19

“ماسکو خود اپنی جانب سے اور اقوام متحدہ کے خوراک کے ادارے کے توسط سے افغانستان کی مدد کا سلسلہ جاری رکھے گا۔” یہ بات جمعے کے روز روسی عہدے داروں نے علاقائی خطرات کے موضوع پر طالبان کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کی میزبانی کے موقع پر کی۔

روس کے شہر کازان میں یہ مذاکرات ایسے تناظر میں ہوئے جب ماسکو یوکرین سےجنگ لڑنے کے باوجود، وسطی ایشیا میں اپنا اثر و رسوخ بر قرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔

روس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی تاس کی رپورٹ کے مطابق مذاکرات علاقائی خطرات اور افغانستان میں سب کی نمائندگی پر مبنی حکومت کی تشکیل پر مرکوز رہے۔

افغانستان کے لیے صدر ولادی میر پوٹن کے خصوصی نمائندے ضمیر کابولوف نے اس میٹنگ میں شرکت کی اور کہا کہ روس اپنی طرف سے اور عالمی ادارہ خوراک کے توسط سے افغانستان کی مدد جاری رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

مذاکرات میں روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کی جانب سے ایک خط پڑھ کر سنایا گیا جس میں الزام عائد کیا گیا کہ افغانستان میں مغربی ملک مکمل طور پر ناکام ہو گئے ہیں اور انہیں ملک کی تعمیر نو کی بنیادی زمہ داری اٹھانی چاہیے۔

ماسکو 2017 سے طالبان اور دوسرے افغان دھڑوں، چین، پاکستان، ایران بھارت اور وسطی ایشیا میں سابق سوویت ملکوں کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کی میزبانی کرتا رہا ہے۔ جمعے کے مذاکرات میں افغانستان کے کسی دوسرے دھڑے نے شرکت نہیں کی۔

کریملن کے سفیر کابولوف نے اس سے قبل کہا تھا کہ طالبان کو بین الاقوامی طور پر تسلیم کرنے کا دارو مدار ان کی حکومت میں سب کی نمائندگی اور ان کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر ہو گا۔

روس نے کئی برس تک طالبان سے رابطے قائم رکھنے کے لیے کام کیا ہے اگرچہ اس نے 2003 میں اس گروپ کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا تھا اور اسے اس فہرست سے کبھی نہیں نکالا۔

روسی قانون کے مطابق ایسے گروپس کے ساتھ رابطہ قابل تعزیر ہے لیکن وزارت خارجہ نے اس بظاہر تضاد کے بارے میں پوچھے گئے سوالات کے جواب میں کہا کہ طالبان کے ساتھ اس کے رابطے افغانستان کو مستحکم کرنے میں مدد کے لیے ضروری ہیں۔

سوویت یونین نے افغانستان میں دس سال تک جنگ لڑی تھی جو 1989 میں اس کے فوجیوں کے انخلا پر ختم ہوئی تھی۔

افغانستان میں طالبان کے مقرر کردہ وزیر خارجہ امیر خان متقی نے جمعے کو کہا کہ دوسرے ملک یہ کہنا بند کر دیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے۔

انہوں نے کازان میں کہا کہ افغانستان دوسروں کو یہ نہیں بتاتا کہ وہ کس قسم کی حکومت بنائیں۔ اس لیے ہم علاقائی ملکوں سے توقع کرتے ہیں کہ وہ اسلامی امارات کے ساتھ ربط ضبط رکھیں نہ کہ افغانستان میں حکومت کی تشکیل کے بارے میں مشورے دیں۔

طالبان اپنی انتظامیہ کو اسلامک امارت افغانستان کہتے ہیں۔

امیر خان نے لوگوں کو افغانستان آنے اور بذات خود اسے دیکھنے کی دعوت دی اور زور دے کر کہا کہ سیاح، سفارت کار، امدادی کارکن، صحافی اور ریسرچرز اعتماد سے ان کے ملک کا سفر کریں اور یہاں آزادانہ طریقےسے گھومیں پھریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں