جدید اسلحہ سازی کے میدان میں اسرائیل کا بڑھتا ہوا کردار

تل ابیب (ڈیلی اردو/اے یف پی/ڈی پی اے) اسرائیل دنیا میں فوجی ساز و سامان اور ٹیکنالوجی کا نواں بڑا برآمد کنندہ ملک بن چکا ہے۔ جدید اسلحہ سازی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اسرائیل کیسے دیگر ممالک کو پیچھے چھوڑتا جا رہا ہے؟

جرمنی نے اسرائیل سے ایرو تھری میزائل ڈیفنس سسٹم خریدا ہے، جس کی مالیت 3.5 ارب ڈالر بنتی ہے۔ جرمنی نے یہ فیصلہ روس یوکرین جنگ کے تناظر میں کیا ہے اور اسرائیل کے لیے ہتھیار فروخت کرنے کا یہ اب تک کا سب سے بڑا معاہدہ ہے۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق اسرائیل دنیا میں فوجی سازوسامان اور ٹیکنالوجی کا نواں بڑا برآمد کنندہ ملک بن چکا ہے۔

وزارت دفاع کے مطابق گزشتہ سال اسرائیل نے ریکارڈ 12.5 ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے تھے، جو گزشتہ تین برسوں کے مقابلے میں دگنی رقم بنتی ہے۔ اسرائیل کو ایران اور دیگر دشمنوں کے حملوں کا خوف تھا، جس کی وجہ سے اس نے اپنے سب سے بڑے اتحادی ملک امریکہ کے ساتھ مل کر ایسے ہائی ٹیک سسٹم تیار کیے ہیں، جو راکٹوں اور میزائلوں کو آسمان کی بلندیوں پر ہی تباہ کر دیتے ہیں۔

جرمنی کو ایرو تھری فروخت کرنے سے پہلے اسرائیل نے واشنگٹن سے بھی منظوری حاصل کی ہے کیونکہ یہ نظام اسرائیل ایرو اسپیس انڈسٹریز (آئی اے آئی) اور امریکی ایرو اسپیس کمپنی بوئنگ نے مشترکہ طور پر تیار کیا تھا۔ اس نظام کا مقصد جرمنی اور اس کے پڑوسیوں کو ایسے بیلیسٹک میزائلوں سے بچانا ہے، جو جوہری وار ہیڈز لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ دفاعی نظام مشتبہ میزائلوں کو سینکڑوں کلومیٹر دور فضا میں ہی تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اسرائیلی اسلحے کی صنعت اور اربوں ڈالر کی کمائی

اسرائیل میں اسلحے کی صنعت اربوں ڈالر کما رہی ہے اور اس کمائی کا زیادہ تر حصہ اب نیٹو اور روس کے درمیان تیزی سے بڑھتے ہوئے تناؤ کی وجہ سے ہے۔ اوزی روبن کو اسرائیل کے میزائل ڈیفنس پروگرام کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ ان کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ”یوکرین کی جنگ نے پوری دنیا میں فوجی نظام اور اسلحے کی مانگ کو جنم دیا۔‘‘

یروشلم انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجی اینڈ سکیورٹی کے ماہر روبن کا مزید کہنا تھا، ”یہ ایک ایسی صورت حال ہے، جس سے تمام مغربی دفاعی صنعتوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے، یورپی اور امریکہ کے ساتھ ساتھ اسرائیل کو فائدہ ہو رہا ہے۔‘‘

یوں تو یوکرین جنگ کی وجہ سے اسرائیلی ہتھیاروں کی فروخت کو ہوا ملی ہے لیکن اسرائیل نے بظاہر روس کی مخالفت سے بچنے کی کوشش میں یوکرین کو ہتھیار فروخت کرنے سے گریز ہی کیا ہے۔

اسرائیل جرمنی کی طرح کئی دیگر یورپی ممالک کو بھی ہتھیار فروخت کر رہا ہے۔ برطانوی اوپن سورس ڈیفنس انٹیلی جنس کمپنی جینز کے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے تجزیہ کار ایلیٹ چیپ مین کہتے ہیں، ” یوکرین جنگ سے یورپ میں ایسے دفاعی نظاموں کی مانگ میں مزید اضافہ ہونے کا امکان ہے، جو اسرائیل کے پاس پہلے سے ہی موجود ہیں اور وہ اس میدان میں قدم جما چکا ہے۔‘‘

اسرائیل کی دفاعی صنعت نے ترقی کیسی کی؟

امریکی محکمہ خارجہ کی سن 2021 میں جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے اپنے قیام کے بعد سے 125 بلین ڈالر سے زیادہ کی امریکی فوجی امداد حاصل کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق، ”اس امداد نے اسرائیل کو دنیا کی سب سے زیادہ قابل اور موثر فوج بنانے میں مدد فراہم کی ہے۔ اس طرح دفاعی صنعت اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں اسرائیل دنیا بھر کے بڑے برآمد کنندگان میں سے ایک بن چکا ہے۔‘‘

حالیہ برسوں کے دوران اسرائیل بغیر پائلٹ کے چلنے والے ڈرونز کی مارکیٹ میں بھی اُبھر کر سامنے آیا ہے اور ایسے ڈرونز دنیا کی متعدد جنگوں میں آزمائے بھی جا چکے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل آذربائیجان نے آرمینیا کے خلاف جنگ میں بھی ایسے ڈرونز استعمال کیے تھے۔

سکیورٹی ماہر روبن کہتے ہیں کہ اسرائیل وہ ہتھیار برآمد کر رہا ہے، جو اس نے اپنے دفاع کے لیے تیار کیے تھے اور متعدد لڑائیوں میں کامیابی سے آزمائے جا چکے ہیں، ”متعدد خریداروں کو یہی بات پسند آتی ہے۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں