میانمار میں فوج کا پناہ گزینوں کے کیمپ پر حملہ، خواتین اور بچوں سمیت 29 افراد ہلاک

ینگون (ڈیلی اردو/رائٹرز) میانمار میں چینی سرحد کے قریب پناہ گزینوں کے کیمپ پر مبینہ فوجی حملے کے نتیجے میں بچوں اور خواتین سمیت 29 افراد ہلاک ہوگئے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق 2021 میں فوجی اقتدار کے بعد عام شہریوں پر یہ بدترین حملہ ہے۔

نیشنل یونٹی گورنمنٹ اور ینگون میں برطانوی سفار خانے نے میانمار کی ریاست کاچن میں عام شہریوں پر شیلنگ کا ذمہ دار فوج کو قرار دیا ہے تاہم فوجی ترجمان نے کہا کہ اس کی ذمہ دار فوج نہیں ہے۔

فوجی ترجمان نے کہا کہ ہم تفتیش کر رہے ہیں، ہم ہمیشہ سرحد پر امن کی صورت حال کا خیال رکھتے ہیں، اس کا ذمہ دار مسلح باغی گروپ ہو سکتا ہے۔

رائٹرز کے مطابق ذرائع نے کہا کہ توپ خانے سے کاچن انڈیپنڈنس آرمی کے زیر انتظام قصبے لائزا کے ایک اڈے سے تقریباً 5 کلومیٹر دور واقع پناہ گزینوں کا کیمپ نشانہ بنایا گیا جس کا برسوں سے میانمار کی فوج کے ساتھ تنازع ہے۔

میڈیا کی رپورٹس اور ذرائع کے مطابق 30 افراد ہلاک ہوئے ہیں اور کاچن انڈیپنڈنس آرمی کے ترجمان نے اس اپنے لوگوں کا قتل عام قرار دیا ہے۔

نیشنل یونٹی گورنمنٹ نے اسے عام شہریوں پر جارحانہ حملہ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی اور کہا کہ دنیا کو میانمار کے جرنیلوں کا احتساب کرنا چاہیے۔

نیشنل یونٹی گورنمنٹ کے ترجمان نے کہا کہ ملٹری کونسل کا یہ عمل جنگی جرم ہے اور انسانیت کے خلاف جرم ہے اور چینی سرحد کے قریب حملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ میانمار اپنے پڑوسیوں کے امن و استحکام کے مطالبات کا احترام نہیں کرتا۔

برطانوی سفارت خانے نے بھی فوج پر اس کارروائی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ فوج کو میانمار کے لوگوں کے خلاف اپنی وحشیانہ مہم کو بند کرنا چاہیے۔

چین کی وزارت خارجہ نے متعلقہ فریقین سے مطالبہ کیا کہ کسی تصادم سے گریز کرتے ہوئے تنازع کو پرامن طریقے سے حل کیا جائے اور چین-میانمار سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے عملی اور مؤثر اقدامات کیے جائیں۔

خیال رہے کہ لائزا قصبہ چینی سرحد کے قریب ہے جو کہ شہر کے ارد گرد بے گھر ہونے والے شہریوں کا مرکز ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق میانمار میں تنازع کے بعد تقریباً 10 لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔

اس سے قبل اسی طرح کا واقع اپریل میں پیش آیا تھا جہاں فضائی حملے میں متعدد عام شہری ہلاک ہوئے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں