لبنان: حزب اللہ سربراہ حسن نصراللہ کی حماس اور فلسطینی اسلامی جہاد کے اعلیٰ رہنماؤں سے ملاقات

بیروت (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) لبنان کے عسکریت پسند گروپ حزب اللہ کے سربراہ نےبدھ کو، اسرائیل حماس جنگ کے دوران،اسرائیل مخالف سرکردہ تنظیموں حماس اور فلسطینی اسلامی جہاد کے سینئر رہنماؤں کے ساتھ بیروت میں بات چیت کی ہے۔

اسی اثنا میں ہمسایہ ملک شام کے سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ بدھ کے روز اسرائیل کے فضائی حملے میں شمالی شہر حلب کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں اس کے رن وے کو نقصان پہنچا اور اسے سروس سے محروم کر دیا گیا۔

اسرائیل کی جانب سے اس حملے پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

خبر رساں ادارے ” ایسو سی ایٹڈ پریس” کے مطابق لبنان میں میٹنگ کے بعد ایک مختصر بیان میں کہا گیا کہ حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ نے حماس کے صالح العروری اور اسلامی جہاد کے رہنما زیاد النخلہ کے ساتھ اس بات پر اتفاق کیا کہ ان تینوں کو ایران کے حمایت یافتہ دیگر عسکریت پسندوں کے ساتھ مل کر مشرق وسطیٰ میں اس ‘حساس مرحلے’ پر اگلے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔

حزب اللہ کے زیر انتظام کام کرنے والے میڈیا اور لبنان کے سرکاری میڈیا پر شائع ہونے والے بیان کے مطابق ان کا مقصد “غزہ اور فلسطین میں مزاحمت کے لئے ایک حقیقی فتح حاصل کرنا اور “غزہ اور مغربی کنارے میں ہمارے مظلوم اور ثابت قدم لوگوں کے خلاف اسرائیل کی غدارانہ اور ظالمانہ جارحیت” کو روکنا ہے۔

اس سلسلے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔

عسکریت پسند تنظیموں کی یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی ہے جب اسرائیل اور غزہ کی پٹی کا انتظام چلانے والے فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے درمیان تنازعے کا تیسرا ہفتہ چل رہا ہے۔

سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر مہلک حملے کے بعد شروع ہونے والی لڑائی میں اسرائیل میں 1400 سےزیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ غزہ میں 6,546 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔

غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ساتھ لبنان اور اسرائیل کی کشیدہ سرحد پر بھی کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے، جہاں حزب اللہ کے ارکان اسرائیل میں حماس کے حملے کے ایک دن بعد سے اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ کر رہے ہیں۔

اس وقت یہ تبادلے حزب اللہ اور اسرائیلی فوجی پوزیشنوں تک محدود ہیں۔ جہاں لبنانی فوجی اور اقوام متحدہ کے امن دستے بڑی تعداد میں تعینات ہیں۔

حزب اللہ کا کہنا ہے کہ جھڑپوں میں اب تک اس کے درجنوں جنگجو ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ اسرائیلی فوج نے بھی اپنی صفوں میں کچھ ہلاکتوں کا اعلان کیا ہے۔

دوسری طرف نصراللہ نے ابھی تک غزہ کی جنگ اور لبنان اسرائیل سرحد پر جھڑپوں کے بارے میں عوامی طور پر کوئی بات نہیں کی ہے۔

تاہم حزب اللہ کے دیگر اعلیٰ عہدیداروں نے اسرائیل کو محصور علاقے میں اس کے کسی امکانی زمینی حملے کے خلاف متنبہ کیا ہے۔

اسرائیلی حکام نے کہا ہے کہ لبنان سے حزب اللہ کی جانب سے کسی سرحد پار حملے کی صورت میں وہ جارحانہ جواب دیں گے۔

وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اتوار کے روز لبنان کی سرحد پر اسرائیلی فوجیوں کے دورے میں کہا، “ہم اسے (حزب اللہ کو) ایک ایسی طاقت کے ساتھ مفلوج کر دیں گے جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے، اور اس کے اور لبنانی ریاست کے لیےنتائج تباہ کن ہوں گے-

یاد رہے کہ حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان سن 2006 میں ایک ماہ تک جاری رہنے والی جنگ ہوئی تھی جو ایک کشیدہ تعطل میں ختم ہوئی تھی۔

اسرائیل ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ کو اپنے لیےسب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے اور اندازہ ہے کہ اس کے پاس اسرائیل کو نشانہ بنانے والے تقریبا ڈیڑھ لاکھ راکٹ اور میزائل موجود ہیں۔

شام کے شہر حلب پر فضائی حملے کے بارے میں اپنی رپورٹ میں سرکاری خبر رساں ادارے صنعانے ایک نامعلوم فوجی عہدیدار کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ حملہ بحیرہ روم کے اوپر سے ساحلی شہر لتاکیا کے قریب کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں حملےسے ہونے والے جانی نقصان کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔

پہلا حملہ 12 اکتوبر کو اس وقت ہوا جب اسرائیلی میزائلوں نے حلب اور شام کے دارالحکومت دمشق دونوں میں بین الاقوامی ہوائی اڈوں کو نشانہ بنایا۔ اس کے بعد حلب کےہوائی اڈے کی مرمت کی گئی تھی۔

اسرائیل نے ایران سے حزب اللہ سمیت تہران کے حمایت یافتہ عسکریت پسندوں کو اسلحے کی ترسیل کو روکنے کی کوشش میں شام کے زیر قبضہ علاقوں میں ہوائی اڈوں اور سمندری بندرگاہوں کو نشانہ بنایا ہے۔

خطے بھر سے ایران کے حمایت یافتہ ہزاروں جنگجو شام کی 12 سالہ خانہ جنگی میں شامل ہو ئے تھے جس سے توازن صدر بشار الاسد کی افواج کے حق میں ہوگیا تھا۔

حالیہ برسوں میں اسرائیل نے دمشق اور حلب کے ہوائی اڈوں سمیت سینکڑوں ایسے حملے کیے ہیں، لیکن تل ابیب نے شاذ و نادر ہی ان کارروائیوں کا اعتراف کیا ہے یا ان پر بات کرتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں