خلیجی ریاستیں حماس کی فنڈنگ ختم کرنے میں مدد کریں، امریکی محکمہ خزانہ

واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) دہشت گردوں کی فنڈنگ کی بیخ کنی سے متعلق امریکی ادارے، ’ٹی ایف ٹی سی‘ نے اس ہفتے ایک ہنگامی اجلاس میں مشرق وسطیٰ میں اپنے اتحادیوں پر زور دیا ہے کہ وہ سات اکتوبر کو اسرائیلی شہریوں پر ایک بڑا حملہ کرنے والے گروپ حماس کی بیرونی فنڈنگ منقطع کرنے کی کوششوں میں اضافہ کریں۔

امریکی محکمہ خزانہ نے ٹی ایف ٹی سی کے رکن ملکوں پر زور دیا کہ وہ حماس کی فنڈنگ کا سلسلہ منقطع کرنے کے مزید اقدامات کرنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔ اس ہفتے کا اجلاس ابتدائی طور پر نومبر میں شیڈول کیا گیا تھا لیکن اسے اسرائیل غزہ بحران کے نتیجے میں مقررہ وقت سے پہلے منعقد کر لیا گیا۔

امریکہ کا ٹی ایف ٹی سی سنٹر 2017 میں قائم ہوا تھا ۔ ریاض میں قائم یہ سنٹر بحرین، کویت، عمان، قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور امریکہ پر مشتمل ہے۔ اسکے رکن ملکوں کی حکومتوں کے عہدے دار اکٹھے ہو کر ان طریقوں پر گفتگو کرتے ہیں جن کی مدد سے وہ دہشت گرد تنظیموں کی فنڈنگ میں کمی اور عمومی طور پر منی لانڈرنگ کے سد باب کےلیے مل کر کام کرسکیں۔

امریکہ نے 1997 سے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہوا ہے۔ امریکی محکمہ خزانہ میں دہشت گردی اور مالیاتی انٹیلی جنس کے انڈر سیکرٹری برائن نیلسن نے منگل کے روز گروپ کو جاری ایک بیان میں کہا کہ، “ ہمارے نقطہ نظر سے، حماس ا ور اس کی دہشت گردی کے خلاف کچھ نہ کرنا فلسطینیوں کی حق تلفی ہے۔ “

انہوں نے کہا، “ مالیاتی نقطہ نظر سے ، ہم واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ حماس نے کئی عشروں تک انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دی جانے والی امداد کا رخ دہشت گردی کی اپنی مہم کی طرف موڑ کر ان کی اقتصادی مشکلات میں اضافہ کیا ہے اور ہمیں ان اقدامات کی عوامی سطح پر مذمت کرنی چاہیے۔“

نیلسن نے کہا، “ہم ایک ایسی دنیا کے متحمل نہیں ہوسکتے جس میں حماس اور دوسری دہشت گرد تنظیموں کے لیے فنڈز اکٹھے کرنے والے رہتے ہوں اور بلا روک ٹوک کارروائی کرتے ہوں، اور اپنی دہشت گردی کو برقراررکھنے کے لیے مالیاتی نظام کا استحصال کرتے ہوں۔”

حماس کا غزہ کی پٹی پر کنٹرول ہے، جہاں 23 لاکھ فلسطینی دو ہفتے سے زیادہ عرصے سے اسرائیل کی اندھا دھند گولہ باری کی زد میں ہیں۔

صرف ایک ہفتہ قبل ہی محکمہ خزانہ نے حماس پر نئی پابندیوں کا اعلان کیا تھا جن میں خفیہ سرمایہ کاری کاوہ پورٹ فولیو شامل تھا جس کے بارے میں اس کا دعویٰ ہے کہ اس سے گروپ کےلیے بڑے پیمانے پر رقم فراہم ہوئی۔

نئی ترجیحات

صوفان سنٹر میں ایک وزیٹنگ سینئیر فیلو اور دہشت گردی کی مالی فنڈنگ کے سد باب پکی ماہر، جیسیکا ڈیوس نے وی او اے کو بتایا کہ حماس کی فنڈنگ کے ذرائع کی پکڑ دھکڑ کی بین الاقوامی کوششیں حالیہ برسوں میں اس خیال سے کم ہو گئی تھیں کہ وہ گروپ دہشت گردی کا اتنا بڑا خطرہ نہیں رہا ہے جتنا کہ وہ ماضی میں رہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ،“ وہ واضح طور پر غلط خیال تھا۔ سات اکتوبر کے واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ حماس ابھی تک ایک مسئلہ ہے۔ اور اسی وجہ سے کچھ ملکوں کی جانب سے ان کی فنڈنگ کی کوششوں کی ترجیحات میں تبدیلی ہوگی۔ “

امریکہ ٹی ایف ٹی سی کے ارکان کے ساتھ ساتھ علاقے کے دوسرے ملکوں پر بھی ایسی تبدیلی پر زور دے گا۔ وہ ملکوں سے درخواست کرے گا کہ جب حماس کے خلاف پابندیاں شروع ہو جائیں تو وہ فنڈ اکٹھے کرنے کی حماس کی کاروائیوں کی ایک ملک سے دوسرے ملک میں منتقلی کو روکنے کے اقدامات میں تیزی لائیں۔

انہوں نے کہا کہ، “ دنیا بھر میں حماس کی مالی معاونت کے بہت سے نیٹ ورکس ہیں۔ ان میں سے کچھ چھوٹے ہیں کچھ بڑے ہیں۔ ان میں سے بہت سے مشرق وسطیٰ میں ہیں لیکن ان میں سے بہت سے مشرق وسطیٰ سے باہر ہیں اور یہ ہی اصل میں وہ نیٹ ورکس ہیں جن پر اس وقت بین الاقوامی برادری کا کچھ اثر ہو سکتا ہے۔ “

انہوں نے مزید کہا،“ ان نیٹ ورکس کو بند کرنے سے حماس کی کارروائیاں جاری رکھنے کی صلاحیت پر ایک بامعنی اثر ہو سکتا ہے۔”

غزہ کی امداد پر سوال

بدھ کے روز ری پبلکن قیادت کے امریکی ایوان کی نگران کمیٹی نے بائیڈن انتظامیہ کو ایک خط لکھا جس میں بین الاقوامی ترقیات کے امریکی ادارے یو ایس ایڈ پر زور دیا گیا کہ وہ یہ یقین دہانیاں فراہم کرے کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر غزہ کی پٹی کو بھیجی جانے والی امداد، حماس یا ان دوسری تنظیموں کے ہاتھ نہ لگ جائے جنہیں امریکی حکومت دہشت گرد سمجھتی ہے۔

یو ایس ایڈ کی سمنتھا پاور کو مخاطب کر کے لکھے گئے خط پر چئیر مین جیمز کومر سمیت کمیٹی کے 24 ری پبلکن ارکان نے دستخط کیے تھے۔

کمیٹی کی جانب سے یو ایس ایڈ سے معلومات فراہم کرنے کی درخواست کرتے ہوئے خط میں زور دیا گیا کہ حماس کے حملوں سے امریکی شہریوں کے ساتھ ساتھ اسرائیلیوں کو براہ راست نقصان پہنچا ہے۔

خط میں کہا گیا کہ “اگر امریکی ٹیکس دہندگان کے ڈالر دہشت گردی کی سر گرمی کی مالی معاونت کررہے ہیں تو بائیڈن انتظامیہ کو امریکیوں اور ہمارے اتحادیوں کی حفاظت کے لیے ایسی امداد کو بند کردینا چاہیے۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں